زمینی حقائق اور سیاسی رویے – برناز

2

زمینی حقائق اور سیاسی رویے

تحریر: برناز

دی بلوچستان پوسٹ

شہید زبیر بلوچ کو آج ہم بہت ہی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جو قربانی انہوں نے اس قوم کے لیے دی وہ باعث فخر ہے، ان کی دلیری ہے، انہیں اس نگاہ سے دیکھنا محض ان کا نظریہ ہی ہے لیکن یہی انسان جب بی ایس او پجار کے رکن تھے تو انہیں دیکھنے اور پرکھنے کا زاویہ یہ نہیں تھا کیونکہ آپ کی پہچان آپ کے سیاسی پلیٹ فارم (تنظیم یا پارٹی) سے ہوتی ہے جبکہ ہر تنظیم یا پارٹی کا اپنا ایک الگ واضح نظریہ ہوتا ہے، اس پارٹی میں شمولیت سے مراد اس کی سوچ کا پیروکار ہونا ہے جبکہ وہی آپ کی پہچان بھی بن جاتا ہے۔

اس حقیقت سے کوئی منکر نہیں ہوسکتا ہے کہ بلوچستان کے جو زمینی حقائق ہیں، انہی کی بنیادوں پر بلوچ قوم کو سیاسی نظریے اور رویے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ وہ ایک ایسی سرزمین ہے جس پر پاکستان نام کے ایک غیر فطری اور ناجائز ریاست کا قبضہ ہے، قبضہ گیریت عمل ہے جبکہ اس کا ردعمل ہمیشہ اور دنیا کے کسی بھی کونے میں صرف ایک ہی رہے گا اور وہ ہے آزادی، اس کے برعکس قبضہ گیریت کا کوئی متضاد نہیں ہے۔

اس وقت بلوچستان کے زمینی حقائق کے رو سے جو سیاسی رویے مزاحمت کی درست سمت کا تعین ہیں وہ، وہ سیاسی رویے ہیں جو پاکستان کی قبضہ گیریت کے خلاف اور بلوچستان کی آزادی کی حمایت میں ہیں اور یہی درست سمت ہے جس پر اپنی تمام تر توانائی خرچ کی جانی چاہیے۔ اگر بلوچستان ایک مقبوضہ سرزمین ہے تو اس کی نجات کا حل صرف آزاد بلوچستان ہے جس کے لیے ریڈیکل سوچ، قوم پرستی اور آزادی جیسے نظریوں کو اپنانا ہی درست عمل ہے۔ جیسے کہ بی ایس او آزاد، بلوچ نیشنل موومنٹ، ایف بی ایم یا دیگر ادارے جو زمینی حقائق کی بنیاد پر جدوجہد کر رہے ہیں۔

اس بات میں کوئی دوہرائے نہیں کہ آج جدوجہد کی درست سمت میں جدوجہد صرف بی ایس او آزاد، بی این ایم یا ایف بی ایم جیسے ادارے کر رہے ہیں یا ہر وہ ادارہ جو بلوچستان کی آزادی چاہتا ہے۔

اس کے برعکس بلوچستان کی سرزمین پر اس کے اصل مرض (غلامی) سے واقف کچھ تنظیمیں یا پارٹیاں وجود رکھتی ہیں، جو بظاہر تو بلوچ قوم کے لیے گلا پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں، ان کے حقوق کے لیے باتیں کرتی ہیں مگر ان کی پہچان اور اصلیت محض ردِ انقلابی اصطلاح سے ہے جیسے کہ بی ایس او پجار ہے یا مینگل، یا ان کی ماس پارٹیاں۔ ایسی تنظیمیں جو بلوچ جوانوں کو صرف زوال کی جانب لے جا رہی ہیں، انہیں جدوجہد کی اصل سمت سے گمراہ کر رہی ہیں، جن کے لیے سیاست ایک مشغلہ ہے، نام کمانے کا چھوٹا سا ذریعہ ہے مگر جو کوئی بھی ان تنظیموں یا پارٹیوں سے تعلق رکھتا ہے وہ صرف خود کو زوال کر رہا ہے اور یقینی طور پر اپنی ساری انرجی غلط جگہ پر لگا رہا ہے۔

ان تنظیموں اور پارٹیوں کا بلوچستان کے عظیم سچ سے دور ہونا ان کے نظریے سے ہی واضح ہے کہ یہ وہ ادارے ہیں جو بلوچستان کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ پاکستان کے آئین کو قبول کرتے ہوئے مصلحت چاہتے ہیں اور یہ وہ سوچ ہے جو آپ کو انقلابی نہیں مصلحت پسند اور غلامانہ کردار عطا کرتا ہے۔ یہ خطرناک سوچ بلوچستان کی ضرورت نہیں، یہی وجہ ہے کہ ان ردِ انقلابی اداروں سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رکن کو بلوچ قوم اہمیت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی اگر وہ سمجھتے ہیں کہ قوم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ بلوچ قوم صرف آزادی چاہتی ہے، مقبوضہ بلوچستان کو آزاد بلوچستان میں بدلنے کا خواب دیکھتی ہے جن سے یہ ادارے کوسوں دور ہیں۔

زبیر بلوچ بی ایس او پجار کے بعد اپنے تنظیم کے ماس پارٹی یعنی نیشنل پارٹی (جو پاکستان کے آئین کو مانتی ہے) میں شمولیت نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس وہ بلوچ نیشنل موومنٹ سے روابط قائم کرتے ہیں جو پاکستان کی قبضہ گیریت کے خلاف نبرد آزما ہیں، بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر زبیر بلوچ بی ایس او پجار کے نظریے کو اپناتے تو وہ اپنے ہی تنظیم کے ماس پارٹی سے سیاست کو آگے لے جاتے مگر انہیں آزادی اور مصلحت پسندی میں تفریق آ گئی تھی، وہ سمجھ گئے تھے کہ غلامی کا صحیح اور درست علاج صرف آزادی ہے، بلوچستان کے آزاد نہ ہونے تک یہ قوم اجالوں تک سفر طے نہیں کر سکے گی، یہ قوم ظلم و جبر سے آزاد نہیں ہوگی، اس قوم کے بچے بھوک، فاقہ کشی سے مرتے رہیں گے، غربت سے مرتے رہیں گے، بیماریوں سے مرتے رہیں گے، یہ زمین جب تک آزاد نہیں ہوتی اس زمین پر بستے والے ہر بلوچ کو سستی موت مرنی پڑے گی، اس قوم کے کسی بھی فرد کو اس کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ بلوچ قوم کے تمام تر مسائل پاکستان کی قبضہ گیری سے شروع ہوتے ہیں، اس قبضہ گیریت کے ہوتے ہوئے یہ مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے، ان کا واحد حل صرف بلوچستان کی آزادی ہے۔

یہ وہ زمینی حقائق ہیں جو بلوچستان کے ہر فرد کو سمجھنے اور قبول کرنے ہوں گے، اور انہی حقائق کی بنیاد پر اپنی جدوجہد کو درست سمت دینے کی کوشش کرنی ہوگی وگرنہ سیاست کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اس کے نتائج کبھی مفید نہیں نکلیں گے۔

یہ وہ سچائی تھی اور شعور تھا جو شہید زبیر کو پجار کے بعد میسر ہوئی، بی ایس او پجار کا انتخاب بلا شبہ ایک غلط فیصلہ تھا مگر اس غلط فیصلے کو انہوں نے آگے جا کر درست سمت دی (مصلحت پسندی سے آزادی تک کے سوچ کا سفر ایک شعوری فیصلہ تھا)، زبیر جب پجار میں تھے ان سے ریڈیکل سوچ رکھنے والے دوستی تک نہیں رکھنا چاہتے تھے مگر آج ان کے ریڈیکل سوچ پر مبنی عمل نے انہیں سب کی نظروں میں اہم قرار دیا۔ اسی لیے کردار وہ اہم ہے جو درست سمت پر مبنی سوچ پر ہو۔

آج بی ایس او پجار کے جوان شہید زبیر پر فخر محسوس کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ فخر کس بات پر کرتے ہیں، اس پر کہ کبھی شہید زبیر بی ایس او پجار کے چئیرمین تھے اور اب ان کے اس قربانی سے اس تنظیم کا نام اونچا ہو جائے گا؟

ایک ردِ انقلابی ادارے سے انقلابی ادارے تک کے ان کے سفر کو اپنا کر، شعوری بنیاد پر ہر فرد کو چاہے وہ پجار سے ہو یا کسی دوسرے ادارے سے، فیصلہ لینا چاہیے، اس بات پر فخر کہ وہ پجار سے تھے نادانی ہے، فخر اس بات پر ہونی چاہیے کہ پجار سے ملی تربیت کو چھوڑ کر وہ آزادی کے پیکر بنے، اور یہی چیز انہیں آج قوم کے بیچ مقبول اور قابلِ قدر بناتی ہے۔ ان کا یہ قدم ان کے تمام دوستوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ ایسے اداروں سے سیاست ترک کردیں جو آپ کو بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد سے دور کرکے مصلحت پسندی کی سوچ فراہم کرکے زوال کر دیتی ہے۔

اس ریاست کے آئین و قانون کو قبول کرنا مادروطن بلوچستان سے ہی دغابازی ہے۔ اپنے لاشعور سے نکل کر شعور تک کا سفر طے کریں اور اپنی توانائی صحیح جگہ پر درست سیاسی نظریے کو اپنا کر خرچ کریں۔ یہ بات بہت ہی اہم ہے کہ شہید زبیر کو قوم نے پجار کی نہیں بلکہ نظریہ آزادی کی سوچ کے سبب اپنایا ہے اور شہیدوں کے اُس فہرست میں شامل کر دیا ہے جو مادرِ وطن پر مر مٹے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔