بلوچستان میں ریاستی رٹ کے مسلسل دعوؤں کے برعکس بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گذشتہ دنوں مسلح کارروائیوں میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران خضدار، مستونگ، قلات اور آواران سمیت مختلف اضلاع میں مسلح افراد نے پاکستانی فورسز اور سرکاری تنصیبات اور تعمیراتی کمپنیوں پر حملوں کے دوران وہاں موجود 27 اہلکاروں کو اغوا، 10 سے زائد گاڑیاں نذرآتش کردئے جبکہ حملوں میں فورسز کو جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
گذشتہ شب بلوچستان کے ضلع خضدار کے تحصیل مال میں مسلح افراد نے چھ گھنٹے تک کنٹرول قائم رکھا، پولیس چوکی اور تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر قبضہ کر کے 18 اہلکاروں کو حراست میں لیا، جبکہ مشینری اور گاڑیاں نذرآتش کی گئیں۔
زرائع کے مطابق آج آواران کے علاقے جھاؤ نوندڑھ میں بلوچ سرمچاروں نے فوج پر گھات حملہ کرنے کے بعد ہلاک ہونے والے فوجیوں کے فوجی ساز و سامانوں کو بھی ضبط کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔
پاکستانی فورسز زرائع نے آج آوران میں ہونے والے حملے میں چار اہلکاروں کی ہلاکت اور
ایک زخمی اہلکار کی تصدیق بھی کردی ہے۔
اسی طرح بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں نے پاکستان چائنہ ایکونومک کوریڈور “سی پیک” شاہراہ پر مختلف مقامات پر ناکہ بندیاں قائم کرتے ہوئے سنیپ چیکنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہے ان حملوں کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے جبکہ کئی علاقوں میں سرکاری اداروں کی رسائی متاثر ہوئی۔
مزید برآں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر کراچی سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے لاہور اور پشاور جانے والی ریلوے سروس تاحال متاثر ہے جس کی بحالی کے لئے ریلوے حکام سیکورٹی فورسز سے بحالی کے لئے رابطہ کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں صوبائی حکومت و سیکورٹی فورسز کی جانب سے ریاستی دعویٰ کا بار بار سامنے آتا رہا ہے جبکہ اس دوران پاکستان فورسز نے بلوچستان کے ضلع خضدار اور دالبندین میں بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف آپریشن کا اعلان بھی کیا ہے۔
تاہم پاکستانی فورسز اور صوبائی حکومت کی جانب سے امن و استحکام کے بار بار کیے جانے والے دعوؤں کے باوجود، زمینی حقائق اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بلوچستان کے کئی علاقے بدستور آزادی پسندوں کے اثر و رسوخ میں ہیں جہاں ریاستی رٹ کا عملی مظاہرہ کم اور مسلح قوتوں کی موجودگی زیادہ نمایاں ہے۔

















































