خضدار: زہری میں مکمل کرفیو نافذ، عوام محصور

1

خضدار شہر سے 120 کلومیٹر دور واقع زہری ٹاؤن اس وقت مکمل طور پر پاکستانی فورسز کے محاصرے میں ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق زہری اور اس کے گردونواح میں جاری پاکستانی فوج کے آپریشن کے باعث صورتحال شدید کشیدہ ہے۔

زہری سے آمد اطلاع کے مطابق گھروں کو تباہ کر دیا گیا، زرعی فصلوں کو جلا دیا گیا، پانی اور شمسی توانائی کے ذرائع کو نقصان پہنچایا گیا، جس سے مقامی آبادی کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جبکہ علاقے میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں، خوراک اور ادویات کی رسائی روک دی گئی ہے اور لوگوں کو اسپتالوں اور بنیادی طبی سہولیات سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کا نظام بھی معطل ہو گیا ہے، جبکہ گھروں پر چھاپوں کے دوران خواتین، بچوں اور بزرگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق کوچھو اور چشمہ سمیت مختلف علاقوں میں مسلسل توپ اور مارٹر فائرنگ جاری ہے، جس کے نتیجے میں کھیتوں اور مکانات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ کسان بھاری مالی خسارے سے دوچار ہیں۔

گولہ باری اور خوف و ہراس

کوچھو کے علاقے میں کپاس کی فصلیں گولہ باری سے تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ چشمہ اور قریبی علاقوں میں مارٹر گولوں کے گرنے سے مقامی آبادی سخت خوف و ہراس کا شکار ہے۔ ڈنڈار اور مورینکی کے مکانات کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم، میڈیا اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کے باعث جانی نقصانات کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی۔

پاکستانی فوجی اور عسکری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ زہری میں بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کے خلاف فضائی اور زمینی آپریشن جاری ہے، اور متعدد مسلح افراد کو ہلاک کیا گیا ہے۔ تاہم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے ان دعووں کی تاحال تصدیق نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ 18 ستمبر کو تحصیل زہری کے علاقے تراسانی کے قریب پاکستانی فوج کے ڈرون حملے میں دو خواتین سمیت تین افراد جانبحق اور ایک بچے سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس سے قبل بھی فضائی بمباری کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ زہری میں انٹرنیٹ اور میڈیا بلیک آؤٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ فورسز اپنی کارروائیوں کو عالمی برادری سے چھپانا چاہتی ہیں۔