خاران، مستونگ اور پنجگور سے آٹھ افراد جبری لاپتہ

1

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مزید آٹھ نوجوانوں کے جبری گمشدگی کے شکار ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق خاران، مستونگ اور پنجگور میں متعدد نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

خاران کے علاقے مسکان قلات، کلی حسن آباد میں گزشتہ رات تقریباً 1 بج کر 45 منٹ پر پاکستانی فورسز نے گھروں پر چھاپہ مارا اور چار نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔

حراست میں لے گئے ایک شخص کی شناخت جہانگیر ولد محمد حسن کے نام سے ہوئی ہے، جو بی این پی کے رکن نجیب حسن آبادی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ واضح رہے کہ اسی گھر سے 2013 میں بھی ایک آپریشن کے دوران دو بھائیوں کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں سے نجیب کو سات ماہ بعد جبکہ بابو حسن کو چھ سال بعد عقوبت خانوں سے رہائی ملی تھی۔

دوسرا احمد شاہ لاپتہ محمود شاہ کے بھائی ہیں، جو 2013 سے تاحال لاپتہ ہیں۔

تیسرا لاپتہ ہونے والا میر غلام جان مینگل کے صاحبزادے ہیں، جو کلی تمپ کے رہائشی ہیں۔لاپتہ ہونے والا باؤل خان مقامی باشندہ ہیں جنہیں بھی اسی کارروائی کے دوران حراست میں لیا گیا۔

ایک اور کارروائی میں 18 اکتوبر 2025 کی رات مستونگ کے علاقے کلی کڑک میں ایف سی اہلکاروں نے رات تقریباً دو بجے گھروں پر چھاپہ مار کر تین بلوچ نوجوانوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا۔

لاپتہ نوجوانوں میں لیاقت ولد محمد شریف کلی کڑک کے رہائشی۔ عقیل ولد غوث بخش، کلی کڑک کے رہائشی اور عرفان پڑنگ آباد کے رہائشی ہیں شامل ہیں۔

اہلِ خانہ کے مطابق نوجوانوں کو اٹھائے جانے کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں۔

اسی تسلسل میں پنجگور کے علاقے گرمکان سے بھی پاکستانی فورسز کی کارروائی کی اطلاع ملی ہے۔ اس واقعے میں حمید ولد حاجی ظفر کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔