حکمت؛ ابدی روشنی
تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی تاریخ کے ہر ادوار میں ایک بنیادی سوال اپنی تمام تر شدت کے ساتھ موجود رہا ہے۔ آخر انسان کی کامیابی کا اصل راز کیا ہے۔ طاقت، چالاکی، یا حکمت؟
یہ سوال تہذیبوں کے عروج و زوال، سلطنتوں کی تعمیر و تباہی، اور انسان کے اخلاقی سفر کے ہر موڑ پر گونجتا رہا ہے۔ طاقت بظاہر سب کچھ جیت لیتی ہے، چالاکی وقتی فائدہ دلاتی ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ دونوں اپنی بنیاد کھو بیٹھتے ہیں۔ ان کے مقابل وہ قوت جو پائیدار، متوازن، اور انسانیت کی خدمت پر مبنی ہے، وہ حکمت ہے۔
حکمت وہ روشنی ہے، جو اندھی طاقت کو سمت دیتی ہے اور وہ میزان ہے جو انسان کے جذبات، خواہشات، اور اعمال کو توازن بخشتی ہے۔ ایک دانا انسان جانتا ہے کہ اصل کامیابی دوسروں کو زیر کرنے میں نہیں بلکہ خود کو قابو میں رکھنے میں ہے۔ یہی ضبط، بصیرت اور تدبیر مل کر وہ طاقت بناتے ہیں جو نہ صرف کامیابی بلکہ سکون اور عدل کی ضمانت بنتی ہے۔
طاقت انسان کو اوپر اٹھا سکتی ہے، مگر حکمت اسے گرنے نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام بڑے مفکرین افلاطون سے ارسطو تک، سیسرو سے اسپینوزا تک ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ حکمت، انسانی برتری کی معراج ہے۔
طاقت انسان کی وہ ظاہری صلاحیت ہے جو اسے اپنے ارادے کے نفاذ کا اختیار دیتی ہے۔ یہ جسمانی، سیاسی، معاشی یا عسکری شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ طاقت میں تیزی ہے، لیکن اکثر یہ اندھی بھی ہوتی ہے۔ طاقت جب حکمت سے عاری ہو تو وہ بربادی کا باعث بنتی ہے۔ رومی مفکر سیسرو نے کہا ہے کہ “حکمت کے بغیر طاقت پاگل کے ہاتھ میں تلوار کے مترادف ہے”
چالاکی عقل کا وہ رخ ہے جو اپنے مقصد کے لیے راہوں کو بظاہر مختصر مگر پوشیدہ طریقوں سے تلاش کرتا ہے۔ یہ وقتی فائدہ تو دیتی ہے مگر اس میں پائیداری نہیں ہوتی۔ چالاکی اعتماد کو کھا جاتی ہے۔ سیاسی چالاکیاں، تجارتی فریب، یا ذاتی ریاکاری سب وقتی طور پر کامیاب دکھائی دیتے ہیں مگر آخرکار انہی کے بوجھ تلے گر جاتے ہیں۔
حکمت وہ قوت ہے جو علم، تجربے، اخلاق اور بصیرت کو ایک ساتھ جمع کرتی ہے۔ ارسطو نے اسے “phronesis” یعنی عملی عقل کہا۔ حکمت نہ صرف خطرے کو پہچانتی ہے بلکہ اس کے اثرات کو کم کرتی ہے۔ یہ فوری مفاد کے بجائے طویل المیعاد بھلائی کا انتخاب کرتی ہے۔ حکمت وہ عقل ہے جو طاقت کو معنی دیتی ہے اور چالاکی کو اخلاقی سمت۔
افلاطون کے نزدیک وہی حکمران کامیاب ہو سکتا ہے جو فلسفی ہو۔ کیونکہ حکمت ہی وہ صفت ہے جو طاقت کو عدل میں بدل دیتی ہے۔ اگر طاقت بغیر حکمت کے ہو تو ظلم پیدا ہوتا ہے، لیکن اگر حکمت کے تابع ہو تو عدل۔ یہی افلاطون کی “Republic” کا مرکزی خیال ہے۔
ارسطو نے عملی عقل کو اخلاقی فضیلت کا مرکز قرار دیا۔ اُس کے نزدیک وہ شخص نیک ہے جو صرف اچھا سوچتا نہیں بلکہ حالات کے مطابق درست عمل کرتا ہے۔ حکمت وہ صلاحیت ہے جو نہ صرف علم بلکہ تجربے کی روشنی میں بہترین فیصلہ کرنے کی قوت دیتی ہے۔
انسانی ذہن خطرے سے بھاگتا ہے، مگر یہی خطرہ اکثر کامیابی کا دروازہ ہوتا ہے۔ خوف ہمیں روکنے کے لیے پیدا ہوتا ہے، مگر حکمت ہمیں بتاتی ہے کہ خوف کی بنیاد اکثر وہم ہوتی ہے۔
خطرہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ حقیقی اور خیالی۔ حکمت کا پہلا کام ان دونوں میں تمیز کرنا ہے۔ جب انسان حقیقت کو پہچان لیتا ہے تو اس کے فیصلے متوازن ہو جاتے ہیں۔ وہ طاقت یا جلدبازی کی جگہ صبر اور تدبیر سے کام لیتا ہے۔
فلسفی اسپینوزا نے کہا ہے کہ “خوف تصور کی وہ صورت ہے جو ہماری عقل کو محدود کر دیتی ہے”۔
حکمت اس حد کو توڑتی ہے۔ وہ خطرے کو رد نہیں کرتی بلکہ اسے سمجھتی ہے اور پھر اس کے مقابلے کے لیے ایسی تدبیر بناتی ہے جو طاقت سے زیادہ مضبوط ثابت ہوتی ہے۔
حکمت کبھی غیر اخلاقی نہیں ہو سکتی۔ چالاکی وقتی طور پر فائدہ دے سکتی ہے مگر اخلاقی بنیاد نہ ہونے کے سبب دیرپا نہیں رہتی۔ کنفیوشیس نے کہا تھا حکمت، شفقت اور حوصلہ یہ تین انسانی اخلاق کی بنیاد ہیں۔
حکمت کا پہلا قدم خطرے کی اصل کو سمجھنا ہے۔ جب ہم جان لیتے ہیں کہ خوف کا منبع کیا ہے، تو ہم اس سے بچاؤ کی بہتر تدبیر بنا سکتے ہیں۔
حکمت طاقت کو مکمل رد نہیں کرتی بلکہ اسے قابو میں رکھتی ہے۔ طاقت تب ہی کارگر ہوتی ہے جب وہ عقل و انصاف کے تابع ہو۔حکمت وقتی مفاد پر نہیں بلکہ دیرپا فلاح پر نظر رکھتی ہے۔ ایک دانشمند انسان جانتا ہے کہ وقتی کامیابی اکثر مستقل نقصان میں بدل سکتی ہے۔
دانشمند لوگ ہمیشہ دوسروں کی رائے لیتے ہیں۔ افلاطون کے مطابق مکالمہ ہی وہ ذریعہ ہے جس سے سچ سامنے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمت کا پہلا اصول “سماعت” ہے، سننے کی استعداد۔
طاقت وقت کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ دولت، حکومت، جسمانی قوت سب زوال پذیر ہیں۔ مگر حکمت انسان کو وہ مقام دیتی ہے جو وقت کے زوال سے آزاد ہوتا ہے۔ طاقت کے لیے لوگ ڈرتے ہیں، مگر حکمت کے لیے لوگ احترام کرتے ہیں۔ جو احترام پر مبنی نظام ہو وہ دیرپا ہوتا ہے، اور یہی حکمت کی اصل کامیابی ہے۔ طاقت خطرے کو دبا سکتی ہے، مگر حکمت خطرے کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ اس لیے حکمت حقیقی امن پیدا کرتی ہے۔
آخرکار انسان کی ساری جدوجہد، اس کے خواب، خوف، اور کامیابیاں سب کا نچوڑ ایک ہی حقیقت میں سمٹ آتا ہے۔ طاقت، چالاکی، شہرت سب وقتی ہیں، مگر حکمت ابدی ہے۔طاقت انسان کو جیت دلا سکتی ہے، مگر حکمت اسے بلندی دلاتی ہے۔ چالاکی راہیں مختصر کر دیتی ہے، مگر حکمت منزل کو پائیدار بناتی ہے۔
ایک دانا شخص خطرے کو رد نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل کو سمجھ کر اسے بے ضرر بنا دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خوف تبھی طاقتور ہوتا ہے جب عقل خاموش ہو جائے، اور عقل تبھی روشن ہوتی ہے جب انسان تدبر، تجربہ اور اخلاق کے ساتھ فیصلے کرے۔
طاقت کے بل پر قائم سلطنتیں وقت کے ساتھ مٹ گئیں، مگر حکمت پر مبنی نظام آج بھی زندہ ہیں۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنی طاقت کو عقل کے تابع رکھتی ہیں، اور اپنی چالاکی کو اخلاق میں بدل دیتی ہیں۔
حکمت طاقت کو ضبط میں رکھتی ہے، چالاکی کو سمت دیتی ہے، اور انسان کو عدل کے قریب لاتی ہے۔ اسی لیے کامل تدبیر وہ ہے، جو خطرے کو ظاہر ہونے سے پہلے محسوس کرے، طاقت کو ظلم بننے سے پہلے روکے، اور چالاکی کو اخلاق میں ڈھال دے۔
حکمت صرف علم نہیں، بلکہ وہ شعور ہے جو وقت، خوف، اور طاقت تینوں کو سمجھ کر انسان کو انصاف، اور پائیدار کامیابی کی راہ دکھاتی ہے۔
تاریخ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ طاقت فانی ہے، مگر حکمت انسانیت کی ابدی روشنی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔