حماس کا امریکی صدر کی جانب سے پیش کی گئی تجویز پر باضابطہ بیان جاری

115

غزہ میں اسرائیل مخالف مسلح تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی تجویز پر باضابطہ بیان جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سمیت کئی نکات پر اپنے مؤقف کا اظہار کیا ہے۔

حماس کے مطابق یہ مؤقف قیادت کے اندرونی مشاورتی عمل، فلسطینی قوتوں و دھڑوں کے ساتھ رابطوں اور برادر ممالک و ثالثوں سے گفتگو کے بعد اختیار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس کی کوشش ہے کہ غزہ پر جاری جارحیت اور نسل کُشی کے عمل کو روکا جا سکے اور فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جائے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس صدر ٹرمپ کی تجویز کے تحت قیدیوں کے تبادلے پر آمادہ ہے اس حوالے سے تنظیم نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کو خواہ وہ زندہ ہوں یا ان کی میتیں مقررہ فارمولے کے تحت رہا کیا جائے گا، بشرطیکہ مناسب میدانِ عمل فراہم کیا جائے۔

حماس نے ثالثی کے ذریعے فوری مذاکرات پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے تاکہ تفصیلات طے کی جا سکیں۔

حماس نے مزید کہا ہے کہ وہ غزہ کی انتظامیہ کو ایک ایسی فلسطینی حکومت کے حوالے کرنے پر تیار ہے جو آزاد اور ماہر شخصیات (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل ہو اور جس پر فلسطینی قومی اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ عرب اور اسلامی حمایت بھی حاصل ہو۔

صدر ٹرمپ کی تجویز میں شامل دیگر معاملات جن کا تعلق غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے قانونی حقوق سے ہے کے بارے میں حماس قیادت نے کہا کہ ان پر حتمی فیصلہ ایک جامع فلسطینی قومی فریم ورک میں کیا جائے گا۔

تنظیم کے مطابق یہ امور بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کی روشنی میں طے ہونے چاہئیں۔

بیان کے آخر میں حماس نے عرب، اسلامی اور بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ان کوششوں کو سراہا جن کا مقصد جنگ روکنا، انسانی امداد کو غزہ تک پہنچانا اور فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی کو روکنا ہے۔