حب: جنید و یاسر حمید کے جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل، آگاہی مہم

30

حب کے رہائشی بھائیوں جنید حمید اور یاسر حمید کے جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کی سائٹ پر آگاہی مہم چلائی  گئی۔

 جنید حمید اور یاسر حمید، دونوں بھائی گذشتہ سال اکتوبر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حب چوکی اور قلات سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے۔ ان کے اہلخانہ کی جانب سے پریس کانفرنسز، مرکزی شاہراہ پر دھرنوں سمیت حب، کوئٹہ اور اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کیئے گئے۔

احتجاجی دھرنوں کے دوران دو مرتبہ حکام نے اہلخانہ کو نوجوانوں کی بازیابی کے حوالے سے یقین دہانی کرائی اور اس حوالے سے معاہدوں پر دستخط کیئے گئے تاہم تاحال دونوں نوجوان بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

آگاہی مہم میں حصہ لیتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء سمی دین بلوچ نے لکھا کہ جنید کو 8 اکتوبر 2024 اور یاسر کو 11 اکتوبر 2024 کو جبراً لاپتہ کیا گیا۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ ایک ہی گھر سے دو افراد کا جبری لاپتہ ہونا اہلِ خانہ کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی قیامت بن چکا ہے۔ وہ مسلسل اذیت، بے یقینی اور انتظار میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جنید اور یاسر کی فوری بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔

ایڈووکیٹ ایمان مزاری نے لکھا کہ ایک بہن اپنے جبری طور پر لاپتہ بھائیوں کی تلاش میں اس ملک کے دارالحکومت میں 70 دنوں کے لیے سڑکوں پر بیٹھی رہی۔ اسلام آباد نے ایسا بے حس اور ظالم رویہ اپنایا لیکن یاسمین حمید آج بھی بلوچ مزاحمت کی زندہ مثال ہے۔

ایمان مزاری نے کہا کہ جنید اور یاسر حمید کو فلفور با حفاظت بازیاب کیا جائے۔ آج انکی جبری گمشدگی کو ایک سال ہوگیا ہے اور انکی فیملی کی تکلیف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے خود یہ اذیت برداشت کی ہو۔ اگر آج آپ جنید اور یاسر کی بازیابی کا مطالبہ نہیں کرتے اس خوف سے کہ آپ اس آگ سے محفوظ ہے تو یاد رکھیں کہ جو جرم سندھ میں پہلے اس ریاست نے کیا (سندھی نیشنلسٹس کی جبری گمشدگیاں)، اس پر خاموشی نے آج پورے پاکستان کو اس جرم کا شکار بنا دیا ہے۔ اس ظلم کے اوپر خاموشی موت ہے۔

جنید و یاسر کی بہن یاسمین حمید نے لکھا کہ 8 اکتوبر کو جنید اور یاسر حمید کو اٹھائے گئے 1 سال مکمل ہو گیا۔ ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم نہیں بھولیں گے۔ انہیں واپس لائیں۔

بی وائی سی کے اسیر رہنماء گلزادی بلوچ کی بہن شمیم بلوچ نے لکھا کہ جنید اور یاسر حمید کے اہل خانہ ہر رات دروازے پر دستک کے انتظار میں گزارتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے بیٹے زندہ ہیں۔ جبری گمشدگی ایک ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔

سائر بلوچ نے لکھا کہ ہر لاپتہ شخص ایک انسان ہے جس کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ بین الاقوامی برادری کو لاپتہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے فوری تحقیقات، شفافیت اور تحفظ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات دو دہائیوں کے زائد عرصے سے جاری ہے۔ رواں سال نہ صرف جبری گمشدگیوں کے واقعات میں بلکہ جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کے قتل کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ان واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سمیت دیگر تنظیمیں جبری گمشدگیوں، جعلی مقابلوں و دیگر انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھاتی رہی ہے۔

حالیہ دنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ستر روز تک دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا تاہم حکومت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔