جدوجہد کا چراغ، جو کبھی نہیں بجھ سکا – نگرہ بلوچ

39

جدوجہد کا چراغ، جو کبھی نہیں بجھ سکا

تحریر: نگرہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ انسان جن کی زندگی جدوجہد، ایثار، اور سچائی سے بھرپور ہو، اُن کا جسم مٹی میں جا سکتا ہے مگر اُن کا نام مٹایا نہیں جا سکتا۔ واجو بھی ایسے ہی ایک نام تھے جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ سنہری حرفوں میں زندہ رہیں گے۔

واجو نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ قوم کی خدمت اور آزادی کی تحریک کے لیے وقف کیا۔ اُن کے دل میں اپنی سرزمین، اپنی قوم، اور اپنے لوگوں سے بے مثال محبت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آزادی کا راستہ آسان نہیں، مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ قربانی کے بغیر کوئی قوم سرخرو نہیں ہوتی۔ جلاوطنی کے دن اُن کے لیے آزمائش کا زمانہ تھا۔ تنہائی، بیماری، اور محرومی کے باوجود اُن کی روح کبھی کمزور نہ ہوئی۔ وہ ہر روز اپنی قوم کے لیے سوچتے، لکھتے، اور نئے راستوں کی تلاش میں رہتے۔ اُن کی گفتگو میں امید ہوتی تھی، اُن کے الفاظ میں یقین، اور اُن کی آنکھوں میں وہ روشنی جو صرف اُن کے دل میں جلتی تھی جو مقصد پر ایمان رکھتے ہیں۔

۴ اکتوبر ۲۰۲۵ کو اُن کا جسمانی سفر ختم ہوا مگر واجو کی جدوجہد، اُن کی سوچ، اور اُن کی قربانیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اُن کی خاموشی نے صدیوں کے شور کو جنم دیا۔ اُن کی موت ایک جسم کا زوال تھی، مگر ایک نظریے کی تجدید بھی۔ آج بھی جب آزادی کی بات ہوتی ہے، جب کوئی نوجوان اپنی مٹی کے لیے کچھ کرنے کا عزم کرتا ہے، تو واجو کا نام دلوں میں گونجتا ہے۔

وہ ہمیں یہ سکھا گئے کہ قوموں کی آزادی صرف ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ ایمان، صبر، اور مسلسل جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے، جو اپنی مٹی سے بچھڑ کر بھی اس کے لیے جیتا رہا وہی واجو تھا۔ وقت کی سختیوں نے اُس کے چہرے پر لکیریں بنائیں، مگر اُس کے عزم پر کبھی کوئی شکن نہ آئی۔ وہ خاموشی میں بھی چیخ کی مانند تھا، جلاوطنی میں بھی ایک چراغ کی طرح جلتا رہا، جو اندھیروں میں بھی روشنی بانٹتا ہے۔

واجو کا سفر ایک انسان کا نہیں، ایک نظریے کا سفر تھا، وہ جانتا تھا کہ راستہ کانٹوں سے بھرا ہے، لیکن اُس نے کبھی قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ جلاوطنی میں اُس نے اپنے وطن کو خوابوں میں دیکھا، اپنی قوم کو خیالوں میں گلے لگایا، اور آزادی کو دعا کی صورت مانگا۔ اُن کے الفاظ میں درد بھی تھا اور امید بھی۔ جب وہ بولتے تو لگتا جیسے تاریخ خود اُن کی زبان سے اپنی کہانی بیان کر رہی ہو۔ اُن کی نگاہوں میں وہ چمک تھی جو صرف اُن لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے جو اپنے مقصد کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں۔

۴ اکتوبر ۲۰۲۵ کو اُن کی سانسیں رُک گئیں، مگر اُن کی کہانی نہیں رکی۔ اُن کی موت ایک جسمانی جدائی تھی، مگر اُن کی یاد ایک ابدی عہد بن گئی۔ وہ چلے گئے، مگر اُن کی جلاوطنی کی دھول آج بھی آزادی کے پروں سے لپٹی ہوئی ہے۔ اُن کی خاموشی آج بھی پُکارتی ہے، قید جسموں کی ہوتی ہے، خوابوں کی نہیں، “میں خواب تھا اور خواب کبھی نہیں مرتے۔”

واجو اُن نسلوں کے رہنما تھے جو جبر کے سائے میں بھی آزادی کا سورج دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں یہ سکھا گئے کہ قومیں اُن خوابوں سے بنتی ہیں جو قربانیوں کے جون سے سینچے جائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔