تم آنسو مت بہاؤ، بلوچ قوم تمہاری قرض دار ہے – مشعل بلوچ

23

تم آنسو مت بہاؤ، بلوچ قوم تمہاری قرض دار ہے

تحریر: مشعل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ تو ہماری تقدیر ہے جو مایوسی، غم اور درد سے بھری ہوئی ہے۔ یہ اسلام آباد میں گزرے 76 دن ان 76 سالوں کی بے بسی اور مفلسی کی عکاسی کرتے ہیں، اس ظلم، جبر اور انسانی لا تعلقی کی عکاسی کرتے ہیں جو ہمارا ساتھ ہو رہا ہے یا پھر کیا جا رہا ہے۔ تم مت رو میری بہن، آپ کے قرض بہت ہی زیادہ ہیں اس مظلوم و بے بس قوم پر اور کتنا قرض دار کرو گی ہمیں؟ ہمارے نہتے اور بے بس عورتوں کو اسلام آباد جیسے اندھے اور بہرے شہر میں آپ نے سہارا دیا، آپ نے انسانیت کی اعلیٰ مثال قائم کی، آپ نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ ایک اکیلی عورت اس ملک کے کھوکھلے ایوانوں کو ہلا سکتی ہے اور ان قبضہ شدہ عدالتوں میں کھڑی ہو کر ظالم کو للکار سکتی ہے۔ یقیناً یہ جرات آپ کے رگوں میں دوڑتے مزاری بلوچ کے خون نے بخشی ہے۔

ہماری تاریخ رہی ہے، ہم وفاداری کا صلہ ہزاروں سال تک چکاتے ہیں۔ ہم ضرور بلوچستان میں پیدا ہونے والی ہر بیٹی کا نام ایمان رکھیں گے، اور ہر اس ماں کے ہاتھ چومیں گے جو ایک ایمان کو جنم دے گی۔ ہم بلوچستان کے المناک فضاؤں میں آنکھیں کھولنے والے ہر بچے کو آپ کا یہ قرض یاد دلائیں گے، ہم اپنی جرات مند نسلوں کو اپنے اوپر سہے ہوئے ہر درد اور ظلم کی داستانیں چلتن کی یخ بستہ ہواؤں میں لرزہ خیز جبر کی داستانیں سنائیں گے، اور یقیناً ہماری ہر گفتگو کی ابتدا ایمان سے ہوگی۔

ہم انہیں بتائیں گے کہ وہ ہرن جیسی آنکھیں، وہ پرنور چہرہ، وہ دہشت بھری للکار، وہ ہمارے رہب دار پہاڑوں جیسا ایمان — اس کے کیے ہوئے احسان مت بھولنا، ان کی دہلیز کو ایک سجدہ گاہ سمجھنا۔

میری بہن، تم مت رو!
تمہارے آنسوؤں کا قرض ہم نہیں چکا سکتے۔ ہم بہت مظلوم ہیں، ہمارے بچوں کو زندہ کیمیکل ڈال کر جلایا جا رہا ہے۔ ہماری مائیں، بہنیں روڈوں پر گھسیٹی جا رہی ہیں۔ اقتدار کی خاطر ہمارے اپنوں نے ہم سے لا تعلقی اپنا لی۔ جب بچے جوان ہوتے ہیں تو والدین خوش نہیں ہوتے بلکہ ناگہانی سے آنے والی اس کے مسخ شدہ لاش کی لرزہ خیز خبر کے بارے میں سوچ سوچ کر ٹوٹ چکے ہیں۔

ہمارے گاؤں، دیہاتوں میں خوشی جیسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکی ہے۔ نہ جانے یہ ریاست ہم سے کیا چاہتی ہے، نہ جانے کس بات کا انتقام لے رہی ہے۔

ہم نے تو اپنی ریاستِ اسلام کے نام پہ قربان کر دیا تھا۔ ہم نے اپنی 11 ہزار سال پرانی معتبر تاریخ مسخ کرکے ایک نئی ریاست کی تکمیل کی تھی اور اس قربانی کے بدلے ہمیں 76 سالوں سے صرف لاشیں مل رہی ہیں، وہ بھی اتنی مسخ شدہ حالت میں کہ شاید ہی کوئی وہ دیکھ پائے یا سہہ پائے۔ ہم نہیں جانتے یہ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارا ساحل و وسائل کا ان سے حساب نہ مانگا جائے؟
ہمیں خدا کی قسم آج تک انہوں نے جتنا چوری کرکے کھایا ہے وہ سب ڈاکٹر ماہ رنگ کے سر کا صدقہ ہے — جائے اور لے جائیں، سر پہ لگے ان کے وہ سب۔

مگر یہ ظلم اور یہ مسخ شدہ لاشیں بند کی جائیں۔ آپ شاید نہیں جانتی میری بہن، ہمارے سارے تعلیمی ادارے بند کرکے ان میں فوج تعینات کیا گیا ہے۔ ہمیں کتاب اٹھا کر چلنے کی اجازت تک نہیں۔ ہمیں تو اب پڑھنے کے لیے بھی کسی خفیہ مقام کا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے۔ میری بہن، میں نہیں چاہتا کہ میں آپ کو اپنے تکلیف کی داستانیں سنا کر افسردہ کروں، لیکن آپ تو سب جانتی ہیں کہ ہمارا کوئی نہیں، ہم کس کو بولیں اور کس سے مدد مانگیں؟ ہمارا تو ہر حق ہم سے چھین لیا گیا ہے اور اب شاید ہم سب مر جائیں۔ اب تو روز و رات جو جیٹ طیاروں سے ہمارے گھروں پر بمباری کی جا رہی ہے اور بچے جو اپنی ماؤں کی گود میں بھوکے سو رہے ہیں، ان کے اوپر گھولے ڈھائے جا رہے ہیں۔ علی الصبح ہمیں “صبح کی سیر” یا پھر کوئی چڑیوں کی چھچھاہٹ سننے کو نہیں ملتی؛ ہمیں ملتا ہے تو صرف عورتوں اور بچوں کی لاشیں اور ہر طرف آہ و پکار، وہ بچوں کی چیخیں اور ہر گھر سے ماتم کی آواز۔ اب تو بلوچستان میں گواڑخ (Tulip) کے پھول بھی نہیں اگتے۔

پہلے وہ پھول ہر سال اگتے تھے اور اک سرخ چادر کی طرح دشت کے میدانوں میں ہماری محبت و خوشیوں کی عکاسی کرتے ہوئے کھلتے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ شاید یہ میرا پہلا یا آخری پیغام ہو آپ کو، مگر درد اس بات کا ہے کہ ہم آپ کا قرض نہیں اتار پائے۔ خدا راہ آپ یہ نہ سوچنا کہ ہم بھول گئے آپ کی قربانیاں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں آپ کو دینے کے لیے، مگر مجھے امید ہے ہم آپ سے نسل در نسل وفا کرتے رہیں گے۔ ہم آپ کے ان قربانیوں کے بدلے ہزاروں سال تک آپ کے ممنون رہیں گے۔ بلوچ کا بچہ بچہ آپ کے دہلیز پہ آپ کو سرِخ سلامی پیش کرنے ضرور آئے گا۔

جنگ زدہ بلوچ سرزمین کی قسم، اگر زندگی نے نباہ کیا تو بولان کے پہاڑوں میں امن و سلامتی کے نغمے ضرور گائے جائیں گے اور اس امن و سلامتی کی گونج پورے دنیا میں سنائی دے گی۔ اور اگر ہم نہ رہے تو وادیٔ بولان کے خوبصورت پہاڑوں میں گواڑخ کے پھول بانٹنے اک شخص ضرور آئے گا — تو آپ سمجھ جانا وہ میں ہوں، یعنی آپ کا مشعل۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔