تاریخ گواہ ہے ہم نے وطن سے وفا کی
“شہید ڈغار چیئرمین زبیر بلوچ”
تحریر: بابل ملک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قومی مزاحمت کی تاریخ ایک طویل قربانیوں کی داستان پیش کرتی ہے۔ انگریز سامراجی تسلط سے لے کر تقسیمِ ہندوستان اور بعد ازاں سامراجی نگاہ سے مختلف ریاستوں کو دو قومی نظریے کا چورن بچھا کر اپنے ساتھ جبراً الحاق کرنے تک یہ خطہ ہمیشہ سے دنیا کی نظر میں رہا ہے۔
پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او کا ایک اہم کردار رہا ہے باشعور علمی فضاء کے قیام کے لیے، بی ایس او کا سرخ پرچم قربانیوں کے لازوال سمندر کی عکاسی کرتا ہے۔ بلوچ نوجوان اپنے مادر وطن اور قوم کے روشن مستقبل کے لیے ہر دور میں اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے آئے ہیں لیکن کبھی بھی اپنے نظریے اور فکر پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہی بے مثال قربانیوں کی فہرست میں اب ایک نام شہید ڈغار، شہید زبیر بلوچ کا ہے، جن کی ماورائے آئین و قانون بہیمانہ طور پر قتل نے ایک طرف تو پوری بلوچ قوم کو رنج و غم کی حالت میں دھکیل دیا مگر دوسری جانب ان کی اس عظیم قربانی نے قومی مزاحمتی تحریک کو مزید جِلا بخشی۔
بلوچ نوجوان جو ہمہ وقت شہید زبیر بلوچ کو ایک توانا جُرات مند آواز کے طور پر قومی اثاثہ سمجھتے تھے، آج اُن کی جدائی نے نہ صرف بلوچ قوم کے دلوں میں پُرامن سیاسی جدوجہد سے مایوسی پیدا کردی بلکہ نئی نوجوان نسل کے دلوں میں بغاوت کو جنم دیا ہے۔ ہر وہ نوجوان جو چیئرمین زبیر بلوچ کی طرح سیاسی و جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتا تھا، آج وہ ریاستی جبر اور ریاست کا سیاسی کارکنوں کے ساتھ پُرتشدد اور ظالمانہ رویہ دیکھ کر اپنی پُرامن سیاست سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔
زبیر بلوچ کو ہمیشہ سے میں نے ایک بلوچ پرست اور مظلوم اقوام کا ساتھی پایا، ان کے اعلی ظرفی کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ وہ ہمیشہ اپنے ورکرز سے نہایت ہی احترام سے جھک کر ملتے تھے۔ ان کے طبیعت میں میں نے کبھی بھی سخت مزاجی نہیں دیکھی۔ وہ انتہائی ہمدرد مزاج کے عظیم انسان تھے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور دیگر لواحقین سے ان کی محبت اور دلی قربت قابل دید تھی۔ شال میں اکثر و بیشتر اگر ان سے کبھی رابطہ نہ ہو پاتا تو چیئرمین آپ کو لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ میں نظر آتے۔ وہ بلوچ مظلوم قوم کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں تھے۔ اگر کبھی لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی احتجاج ہوتا تو زبیر بلوچ کا جرات مندانہ اندازِ گفتگو وہاں موجود ہر بلوچ کے دل میں مزاحمت کے چراغ روشن کرتا۔ انہوں نے اپنا قیمتی وقت بلوچ قومی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا۔
بلوچ نسل کشی و لاپتہ افراد کے حوالے سے سال 2022 میں جب کوئٹہ ریڈ زون میں ایک ریلی دھرنے کی شکل اختیار کرگئی تو وہاں چیئرمین خود 52 روز روڈ پر ان لواحقین کے ساتھ شریک رہے، حالانکہ ان کا رہائش گاہ دھرنا گاہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، مگر وہ اُن سرد راتوں میں ادھر ہی روڈ پر ان لواحقین کے ساتھ سوتے تھے۔ وہ اک لمحہ بھی اپنے ورکرز اور ساتھیوں کو اکیلا چھوڑنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے معصوم بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر قومی جدوجہد کو وقت دیا۔ ان کی قربانیاں بلوچ قوم کے لیے مشعل راہ ہیں اور آج ہر بلوچ نوجوان زبیر بلوچ کی قربانی پر فخر محسوس کرتا ہے۔
بلوچستان میں جنم لیتے انسان بحران اور غیر جمہوری قوتوں کا پارلیمنٹ اور عدالتوں پر غالب آنا یہ عناصر تھے جن کی وجہ سے زبیر بلوچ کے تقاریر اور سیاسی بیانیے میں ہر سننے والے کو درد، مظلومیت اور غصہ نظر آتا تھا۔ وہ اپنے ابتدائی دورِ سیاست سے لے کر آخری سانس تک بلوچ کے نوجوان کو ایک خودمختار حیثیت سے دیکھنا پسند کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں ملٹرائزیشن اور فوجی قبضہ گیری کے خلاف انہوں نے تمام طلباء تنظیموں کو ساتھ لے کر ایک تاریخی تحریک چلائی اور جامعہ بلوچستان سمیت تمام تعلیمی اداروں کو بندوق کلچر سے پاک کردیا۔ نوجوانوں کا حوصلہ دیا کہ وہ اپنے حق، حقوق اور آزادیِ رائے کے لیے آواز بلند کریں اور ایک آزاد فضاء میں رہ کر اپنی شعوری و سیاسی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان کے اس پُرامن تعلیمی انقلاب نے دنیا کے سامنے زبیر بلوچ اور بی ایس او کا بیانیہ شیشے کی طرح صاف کردیا۔
یقیناً اُن کی جدائی نے ہمارے لیے جو سیاسی و فکری خلا پیدا کیا ہے، اسے پورا کرنا ناممکن نہیں تو بےحد دشوار ضرور ہے۔ مگر اُن کی تعلیمات، سیاسی بصیرت اور جہدِ مسلسل ہمارے لیے ان تاریک راہوں میں روشنی کی مشعل بن چکی ہے۔ انہوں نے بلوچ قومی بقاء اور اپنی قومی شناخت کے معاملے میں کبھی مصلحت کا راستہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ دلیرانہ انداز میں اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور ہر حال میں حق گوئی و استقامت کا علم بلند رکھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔