بلوچ لکھاریوں کے فرائض، بلوچ جہد میں
تحریر: کامریڈ قاضی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان آج ایک سنگین دور سے گزر رہا ہے۔ بلوچ کی رسم و رواج کی پامالی ہو رہی ہے، زبان دشمن کے پروں تلے ہے، بلوچ کے وسائل کی لوٹ ماری ہو رہی ہے، بلوچ کی زمین کے اوپر بارود کی بُو ہے، مزائل ٹیسٹ سے لے کر ایٹمی بم دھماکہ تک ہوا ہے۔ اور بلوچ مرد اور بہنوں کی دوپٹہ کھینچا جا رہا ہے اور بلوچستان میں روزانہ لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں مگر ہر بلوچ نوجوان، ادب اور صحافی خاموش ہیں۔ کیوں؟ کیوں ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ ہمیں یہ بات ضرور سوچنی چاہیے کہ ہم کیوں خاموش ہیں۔ ہر کسی کو یہ سوال اپنے آپ سے کرنا ہے کہ کیا خاموشی سے کچھ حاصل ہوتا ہے؟
بلوچستان میں لکھاری اپنے محبوبوں کی یادوں میں لمبی لمبی نظمیں لکھتے ہیں، کتابیں لکھتے ہیں مگر یار کی تعریف سے ان کا دل پھر بھی نہیں بھر پاتا۔ بلوچ انقلابی معنوں، مضامین نگار برزکوئی اپنے ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ “میرے قوم کے نوجوان، جب لکھاری، شاعر و ادیب بنتے ہیں تو حسنِ یار کی تعریف اور اس کی زلفوں کے ہر ایک پیچ و خم پر کتاب لکھ دیتے ہیں، اور واسکٹ کے سارے بٹن حلق تک بند کرکے گھومتے ہوئے خود کے لئے والٹیئر اور سارتر سے کم رتبہ پر تیار نہیں ہوتے، لیکن جب ان سے کہو کہ نظریں حسن یار سے پھیر کر ذرا آس پاس میں جلتے ہوئے گھروں، زمین پر پڑی ہوئی بدبودار لاشوں اور لمبے توپوں پر نگاہ ڈالیں، ذرا بارود کی بکھری ہوئی خوشبو کو سونگھیں، ذرا ہمسائے کے اجڑے گھر کے لو کے حدت کا احساس کریں، تو جلدی سے قلم کا ڈھکن لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں۔”
مگر انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم غلام ہیں، ہماری استحصال ہو رہا ہے، ہماری زمین ہم سے چھینی جا رہی ہے جو ہماری آبا و اجداد کی دی ہوئی میراث ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے آئے ہیں کہ اگر حالات سازگار ہوئے تو ہم لکھیں گے۔ ابھی لکھنا مناسب نہیں۔ انہیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ 1948 سے لے کر آج تک اگر حالات بہتر نہیں ہوئے تو کب ہوں گے؟ انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ باقی قوموں نے اپنی تحریکوں کی کہانیاں لکھیں، چاہے حالات جنگ کے تھے یا ٹھیک تھے۔
ہماری مصنفین کو چاہیے کہ وہ اپنے قوم پر ہونے والے ہر ظلم کو لکھیں، جو انہوں نے دیکھا اور سنا ہے۔ انہیں ان ماؤں کی یادوں کے بارے میں لکھنا چاہیے جو کئی سالوں سے اپنے بچوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں، ان بہنوں کے بارے میں لکھنا چاہیے جو اپنے بھائیوں کو ہر سڑک، ہر پریس کلب میں ڈھونڈ رہی ہیں، ان کی فریادوں اور آنسوں کو تحریر میں لائیں۔ انہیں ہر وہ لمحہ قلمبند کرنا چاہیے جب ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے کسی نوجوان کو شہید کیا، ان کی لاشوں کو گھسیٹا گیا۔ انہیں توتک اور زہری کی تاریخ ظلم کو لکھنا چاہیے، اور ان مظالم کو جس میں ریاست اور اس کے درندوں نے مظلوم بلوچوں کے گھر جلا دیے، ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیا۔ جھاؤ سے لے کر ڈیرہ بگٹی تک کی خواتین کے حال کے بارے میں لکھنا چاہیے جنہوں نے ریاستی جبر دیکھا، اور ان خواتین کی کہانی بھی جو ثنا اللہ رہری جیسے فرعون اور عبد الرحمٰن کھتران جیسے نمرودوں کے کتوں نے اغوا کیا۔
ہمارے قاریوں کو چاہیے کہ وہ ہر اس قتل، ڈیتھ اسکواڈ کے ظلم اور جبر، اور اس کے نتائج کو تحریر کریں، جیسے شفیق، سرفراز، علی حیدر، راشید پٹھان، ملا برکت، صمد سمالانی وغیرہ، اور سرکاری دربار کے لوگوں کے بارے میں بھی لکھیں۔
ہمارے ادب کو اپنے شہداء کے بارے میں لکھنا چاہیے، ان کی کہانیاں، ان کی ٹریل، ان کی بائیوگرافی، ان کے کردار اور قربانیاں، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے شہداء کو جان سکیں اور ان پر فخر کر سکیں۔ اگر کوئی بلوچ فلم میکر یا یوٹیوبر یا ٹک ٹاکر باہر ہے، تو انہیں چھوٹے ویڈیوز اور ڈاکومنٹریاں بنانا چاہیے، تاکہ دنیا کو اپنے شہداء کا پیغام پہنچا سکیں۔ ہماری آزادی کا پیغام بھی اور دشمن کے پروپیگنڈے کی ناکامی کے لیے ثبوت اور دلال فراہم کریں اور جو لوگ احتجاج اور مظاہرے کرتے ہیں، ان کے بارے میں لکھیں، کہ کس طرح ان پر کریک ڈاؤن ہوا اور ریاست نے کیا کیا۔
ہمارے شاعروں کو چاہیے کہ وہ انقلابی نظمیں لکھیں، مسلح آپریشنز کی کہانیاں اور داستانیں بیان کریں، اپنی آزادی کے خوابوں اور مقاصد کے بارے میں لکھیں۔ ان کے تحریریں خوبصورت ہونی چاہیے تاکہ پڑھنے والا بور یا تھکا ہوا محسوس نہ کرے۔ ہمارے سرمچاروں کو اپنی جنگی کہانیاں لکھنی چاہیے اور دشمن کی شکست کو اپنی ڈائریوں میں محفوظ کریں، جیسے چی گویرا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔












































