بلوچ لبریشن آرمی جنوبی ایشیاء کا سب سے مہلک مسلح تنظیم قرار۔ امریکی تھنک ٹینک

9
سکرین گریب

11 اگست کو امریکی محکمہ خارجہ نے باضابطہ طور پر بلوچ لبریشن آرمی بی ایل اے اور اس کی فدائین یونٹ مجید بریگیڈ، کو اپنی غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا، یہ فیصلہ مارچ 2025 میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جعفر ایکسپریس ٹرین کے ہائی جیک ہونے کے پس منظر میں کیا گیا جس سے بی ایل اے جنوبی ایشیا کی تاریخ میں دوسری بغاوتی تنظیم بن گئی جنہوں نے کسی ٹرین کو اسکے مسافروں سمیت یرغمال بنا لیا ہو اس سے قبل بھارتی ماؤ نوازوں نکسل گروہ نے 2009 بھارتی ٹرین کو 5 گھنٹوں کے لئے یرغمال بنالیا تھا۔

غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شمولیت اس بات کی طرف توجہ مبذول کراتی ہے کہ بی ایل اے کو اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کے باعث علاقائی سطح پر بڑھتی ہوئی توجہ حاصل ہو رہی ہے، تنظیم کو 2019 سے امریکی “خصوصی نامزد دہشت گردوں” کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ 

اگرچہ اس گروپ کی ایف او ٹی میں شمولیت امریکہ اور پاکستان کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں ممکنہ تعاون کو فروغ دے سکتی ہے لیکن اس سے ساتھ ہی بی ایل اے کے ابھرتے ہوئے کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے جو اب جنوبی ایشیا کی طاقتور ترین بغاوتی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں بی ایل اے نے کئی نمایاں حملے کیے ہیں حتیٰ کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں پر عارضی قبضہ بھی کیا تاکہ صوبے میں ریاستی اختیار کو چیلنج کیا جا سکے اگرچہ امریکی پابندی بی ایل اے کے لیے قانونی اور مالی مشکلات پیدا کرے گی لیکن اس سے تنظیم کی رفتار کو روکنے کا امکان کم ہے الٹا ایسا قدم ممکن ہے کہ تنظیم کے بنیادی حامی طبقے میں اس کی مقبولیت مزید بڑھا دے۔

بی ایل اے کا علاقائی تناظر

بلوچ لبریشن آرمی کی بڑھتی ہوئی تنظیمی طاقت اور جنوبی ایشیا میں دیگر بغاوتی تحریکوں کے ختم یا دبنے سے یہ تنظیم خطے کی سب سے مؤثر بغاوتی قوتوں میں سے ایک بن چکی ہے 1990 کی دہائی میں، سری لنکا کی لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام جنہیں تامل ٹائیگرز کے نام سے جانا جاتا ہے جنوبی ایشیا کی سب سے طاقتور بغاوتی تحریک سمجھی جاتی تھی تاہم مئی 2009 میں سری لنکن حکومت نے اس تنظیم کو باضابطہ طور پر شکست دے دی۔

اسی طرح نیپال کی ماؤ نواز بغاوت کو 2006 میں ایک تفصیلی مذاکراتی عمل اور امن معاہدے کے ذریعے ختم کیا گیا اور اگرچہ اگست 2021 میں امریکی انخلا کے بعد طالبان نے افغانستان کی حکومت پر قبضہ کرلیا اب یہ تنظیم جسے عالمی برادری کا بڑا حصہ ملک کی امرِ واقعہ حکومت کے طور پر تسلیم کرتا ہے عالمی برادری سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ داعش خراسان جیسے گروہوں کے خلاف اپنی انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی پر عمل کر سکے۔

اسی طرح بھارت کے شمال مشرقی حصے میں دیگر بغاوتی تحریکیں قیادت کے بحران، مالی مسائل اور عوامی حمایت میں کمی کے باعث اندرونی اختلافات کا شکار ہیں۔

مندرجہ بالا تحریکوں کے برعکس بی ایل اے ایک مضبوط سماجی حمایت برقرار رکھتی ہے اس کا بنیادی ڈھانچہ محروم بلوچ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور تنظیم ایک ایسے بیانیے کو فروغ دیتی ہے جو بلوچ معاشرے کے بڑے حصے میں پائی جانے والی شکایات سے ہم آہنگ ہے اگرچہ اس کے پرتشدد طریقوں سے بہت سے لوگ متفق نہیں۔

بی ایل اے نے اپنی عملی حکمتِ عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے روایتی گوریلہ تصادم “مارو اور بھاگو” طرز کی کارروائیوں جیسے بجلی کے کھمبوں، گیس پائپ لائنوں اور ریلوے لائنوں پر حملوں سے آگے بڑھ کر فوجی کیمپوں، قافلوں اور فوجی چوکیوں پر بڑے اور خطرناک حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

بلوچستان کا دشوار گزار کم آبادی والا علاقہ جو پہاڑوں اور ریگستانوں سے بھرا ہوا ہے بی ایل اے کے حق میں جاتا ہے کیونکہ اس نے زمینی جعفریہ  کی بہتر سمجھ بوجھ کے ذریعے پاکستانی فوج کی روایتی برتری کے مقابلے میں طاقت کے فرق کو کافی حد تک پورا کیا ہے۔

بی ایل اے کے عروج کے عوامل

حالیہ برسوں میں بی ایل اے نے متوسط طبقے میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے 2018 میں اس گروپ سے علحیدگی بعد جس کی قیادت حیربیار مری کر رہے تھے بی ایل اے کی قیادت متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں جیسے استاد اسلم بلوچ اور بشیر زیب کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی۔

یہ دونوں رہنما بلوچ قبائلی ڈھانچوں کے بجائے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد سے ابھرے ان کا قیادت تک پہنچنا بلوچ آزادی  پسند تحریک کو جمہوری سمت میں لے گیا جس سے زیادہ وسیع طبقے کو اس تحریک میں شامل ہونے اور حصہ لینے کا موقع ملا اور بی ایل اے کو اس تحریک کے مرکزی علمبردار کے طور پر ابھارا۔

بی ایل اے کا فیصلہ سازی کا عمل کسی حد تک عوامی اور نیم جمہوری ہو گیا ہے جس نے تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے افراد کو بڑی تعداد میں تنظیم میں شمولیت پر آمادہ کیا نئی قیادت نے قبائلی انداز میں فیصلے مسلط کرنے کے بجائے باہمی مشاورت سے فیصلے کیے جس سے انہیں عوامی حمایت حاصل ہوئی، خاص طور پر مکران کے ساحلی علاقے سے بھی حمایت ملی۔

اس نئے قیادت نے تحریک میں خواتین کی شمولیت کے دروازے بھی کھول دیے نہ صرف نگہداشت کرنے والی بھرتی کار، فنڈ جمع کرنے والی یا پروپیگنڈہ کرنے والی حیثیت میں بلکہ بطور خواتین کو جنگجو بھی شامل کیا گیا۔

اسی طرح سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا جب سوشل میڈیا نے دیہی بلوچستان میں رسائی حاصل کی تو اس نے بی ایل اے کے ہمدردوں کو اپنی شکایات، مطالبات اور مقاصد کو بلند کرنے کا موقع دیا سوشل میڈیا نے معلومات کے بہاؤ پر پاکستانی ریاست کی اجارہ داری ختم کردی جس سے بی ایل اے نے بلوچ نوجوانوں میں بیانیے کی جنگ میں غلبہ حاصل کر لیا۔

بھرتیوں میں اضافہ

بی ایل اے کی بھرتیوں میں اضافہ بھی اس کے عروج میں ایک اہم عنصر رہا ہے نئی قیادت نے بھرتیوں کو صنفی شمولیت پر مبنی بنایا جس سے خواتین کی بڑی تعداد میں شمولیت کی راہ ہموار ہوئی دوسری جانب بی ایس او آزاد پس منظر رکھنے کی وجہ سے بی ایل اے میں تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے نوجوانوں کی بھرتی میں اضافہ ہوا۔

بی ایل اے نے 2024 میں “آپریشن ہیروف” کے بعد اپنی جرات اور مؤثریت میں نمایاں اضافہ دکھایا ہے تنظیم نے پیچیدہ اور مربوط حملے کیے جن میں بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے خودکش حملوں کی ایک لہر اور 2025 میں جعفر ایکسپریس ٹرین کو ہائی جیک کر کے درجنوں افراد کو یرغمال بنانا شامل ہے۔

بی ایل اے کے سینکڑوں جنگجوؤں بعض اوقات دور دراز علاقوں پر قبضہ کرنے مقامات پر رات کے وقت بلوچستان کی مرکزی شاہراہیں بند کر دئے بی ایل اے کے مطابق اس کے پاس تقریباً 5,000 سے 6,000 جنگجو موجود ہیں اور پاکستانی ریاست کے خلاف پائے جانے والے غصے کے باعث یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

ریاستی پالیسی

پاکستانی فوجی اداروں کے سخت انسدادِ دہشت گردی اقدامات نے عوامی غصے کو ہوا دی ہے اور بی ایل اے کی بھرتیوں میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسلام آباد بلوچستان کے تنازعے کو عموماً ایک محدود سکیورٹی زاویے سے دیکھتا ہے اور سیاسی تصفیے کی کسی بھی کوشش سے گریز کرتا ہے، جعلی انتخابات کے ذریعے من پسند صوبائی حکومت قائم کرنا پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے من مانی گرفتاریوں کے خلاف پُرامن احتجاجوں کو سنسر کرنا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسے بلوچ سماجی گروپس کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دینا یہ سب عوامل عوام کو بی ایل اے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

جون میں بلوچستان اسمبلی میں صوبائی حکومت نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ بلوچستان ترمیم 2025 منظور کیا اس قانون نے پاکستانی سیکورٹی فورسز کو یہ اختیار دیا کہ وہ کسی بھی شخص کو چارج شیٹ کے بغیر گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کر سکیں یہ قانون آئندہ چھ سال تک نافذ العمل رہے گا اور مزید دو سال کے لیے توسیع دی جا سکتی ہے۔

انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 2025 کے نتیجے میں سکیورٹی اداروں کو سیاسی اختلاف دبانے من مانی گرفتاریوں جبری گمشدگیوں کو قانونی جواز دینے، اور سخت انسدادِ دہشت گردی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید سے بچنے کا قانونی تحفظ مل جائے گا۔

پہلے سے سخت فوجی حکمتِ عملی میں مزید عسکریت پسندی کا اضافہ بلوچ عوام کو مزید بدظن کرے گا نئے قانون کے تحت سکیورٹی اداروں سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ  کی بلوچ یکجہتی کمیٹی جیسے سماجی گروپس کو دبانے کے لیے ان قوانین کا غلط استعمال کریں گے ماہ رنگ بلوچ کو 2025 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد بھی کیا گیا تھا اور بی وائی سی کو بی ایل اے کے سیاسی ونگ کے طور پر پیش کریں گے نتیجتاً بلوچ عوام میں بڑھتا ہوا غصہ بی ایل اے اور دیگر علیحدگی پسند گروہوں کی بھرتیوں کو مزید بڑھا دے گا جس سے صوبے میں تشدد کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر جاری رہے گا۔

چین، پاکستان اقتصادی راہداری جو چین کا ایک بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے اور اس میں انفراسٹرکچر، توانائی اور مواصلاتی منصوبے شامل ہیں نے بھی بی ایل اے کے علیحدگی پسند بیانیے کو تقویت دی ہے بی ایل اے اور دیگر بلوچ آزادی پسند چین کو ایک نئے نوآبادیاتی طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں جو پاکستانی ریاست کے ساتھ ملی بھگت کر کے بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کررہا ہے اور مقامی بلوچوں کے حقوق کو نظرانداز کررہا ہے۔

بی ایل اے نے سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں جعفر ایکسپریس اور کنفیوشس انسٹیٹیوٹ پر حملے شامل ہیں اور ان کارروائیوں نے تنظیم کو نمایاں شہرت دلائی ہے بی ایل اے کے لیے سی پیک پر حملے ایک ایسا ذریعہ بن گئے ہیں جس کے ذریعے وہ بلوچ مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر سکے اور اپنی شکایات و مطالبات پر توجہ حاصل کر سکے۔

بی ایل اے نے سی پیک کے خلاف حملوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک مقامی آزادی پسند تحریک کو عالمی جغرافیائی سیاست کے ایک غیر اعلانیہ محور میں بدل دیا ہے جہاں یہ گروہ جنوبی ایشیا میں چین کے توسیعی منصوبوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔

پاکستان چین اقتصادی کوریڈور “سی پیک” چین کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ چین کو بحرِ ہند کے تجارتی راستوں تک براہِ راست رسائی فراہم کرتا ہے جس سے وہ جنوبی بحیرۂ چین میں اپنے رویے پر عالمی نگرانی سے بچ سکتا ہے۔

بی ایل اے نے سی پیک کو بلوچ شناخت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے اور اسی جواز کے تحت چینی کارکنوں کو نشانہ بناتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ کی جانب سے بی ایل اے کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد تنظیم کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے حامی طبقے میں یہ اقدام تنظیم کی جائز حیثیت کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے حملوں میں کمی کے بجائے ان میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

نتیجہ۔

بلوچ لبریشن آرمی بی ایل اے کا غیر معمولی عروج جو بلوچ بغاوت کی قیادت کے طور پر سامنے آیا ہے چند حقیقی شکایات پر مبنی ہے جنہوں نے اس تنظیم کے پیغام کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے اور اسے ایک لچکدار اور ڈھلنے والی تنظیم بنا دیا ہے۔

اپنے بغاوتی نظریے کو عوامی رنگ دینے بلوچ معاشرے کے زیادہ وسیع حصے کو تنظیم میں شامل کرنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو حکمتِ عملی کے ساتھ اپنے بیانیے کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کرنے پاکستانی حکومت کے جبر کے خلاف عوامی غصے سے فائدہ اٹھانے اور خود کو پاکستان کی جیوپولیٹیکل سیاسی و علاقائی عزائم کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرنے کے ذریعے بی ایل اے نے بلوچ آزادی کی تحریک کو مضبوط کیا ہے جس سے یہ جنوبی ایشیا کی سب سے سرگرم اور مؤثر مسلح تنظیم بن گئی ہے۔

اگرچہ بی ایل اے کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کیا جانا پاکستانی ریاست کے بیانیے کے لیے ایک سفارتی کامیابی اور امریکہ، پاکستان انسدادِ دہشت گردی تعاون کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے تاہم امکان یہی ہے کہ یہ امریکی اقدام بی ایل اے کی بغاوت کے
خاتمے پر کوئی فیصلہ کن اثر نہیں ڈالے گا۔

یہ تجزیہ جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن واشنگٹن میں قائم تحقیقی ادارے میں شائع ہوا، تجزیہ سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے منسلک ریسرچ فیلو اور سکیورٹی تجزیہ کار عبدالباسط نے کیا۔