بلوچ آزادی کا میٹاپالیٹیکل منظرنامہ
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
سیاست کو سمجھنے کے دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو نظر آتا ہے جس میں طاقت کے ادارے، جماعتیں، مذاکرات، محاذ اور معرکے شامل ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ جو نظر سے اوجھل رہتا ہے مگر واقعات کی روح پر حکم چلاتا ہے۔ یہی دوسرا درجہ میٹاپالیٹکس ہے، جہاں سیاست اپنی ظاہری حرکت سے آگے بڑھ کر معنی کا سوال بن جاتا ہے۔ میٹاپالیٹکس اس چیز کی جانچ ہے کہ کون فیصلہ کرتا ہے کہ کسی عمل کا نام کیا ہوگا، کس زبان میں اسے بیان کیا جائے گا، کس نیت سے وہ سمجھا جائے گا، اور کس اخلاقی معیار پر پرکھا جائے گا۔ یہ وہ نہج ہے جہاں سچائی اور طاقت کی رشتے داری بے نقاب ہوتی ہے۔
بلوچ اپنی جدوجہد کو صرف ایک عسکری یا انتظامی معاملہ نہیں سمجھتا بلکہ اپنی خودی، اپنی فہم اور اپنے وجود کے حق کی بازیابی سمجھتا ہے۔ جب موجودہ بلوچ تحریک آزادی ابھری تو عالمی اور مقامی بیانیوں نے اسے طرح طرح کے خانوں میں قید کرنے کی کوشش کی، مگر اس تحریک نے ایک ایسی فکری توانائی دکھائی جس نے سب سے پہلے اپنے آپ کو نام دینے کے حق پر قبضہ کیا۔ یہی اس کی بنیادی اور سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اس نے بلوچ آزادی کو میٹاپالیٹکس کے میدان میں زندہ اور حاضر رکھا۔ پاکستان اپنی پوری ریاستی مشینری کے ساتھ میدان جنگ میں دباؤ بڑھا سکتا ہے، شہروں میں گرفت سخت کر سکتا ہے، مگر وہ اس حقیقت کو بدلنے میں ناکام رہا کہ بلوچ اپنی جدوجہد کے مفہوم پر خود دسترس چاہتا ہے اور اس دسترس کے بغیر کسی سیاسی انتظام کو آخری نہیں مانتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف ریاستی طاقت ظاہری سطح پر غالب نظر آتی ہے تو دوسری طرف فکری سطح پر وہ اپنے اثر سے محروم ہو چکی ہے۔
میٹاپالیٹکس میں بلوچ جیت رہا ہے کیونکہ وہ اپنی جدوجہد کی تعبیر خود لکھ رہا ہے، اپنے عمل کی اخلاقیات خود مقرر کر رہا ہے اور اپنے مستقبل کے تصور کو ریاستی نمونوں کے بجائے اپنی اجتماعی فہم سے اخذ کررہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب تک یہ فکری برتری اپنی شرط پوری نہ کر لے، جنگ رکے گی نہیں۔ یہ جملہ ایک جذباتی نعرہ نہیں بلکہ ایک علمی نکتہ ہے کہ جس قوم نے اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق واپس لے لیا ہو، وہ سیاسی انتظام کے کسی وقتی سمجھوتے سے مطمئن نہیں ہوتی۔ اس میں اخلاقی مستقل مزاجی پیدا ہوجاتی ہے اور یہی اخلاقی مستقل مزاجی میٹاپالیٹکس کی اصل طاقت ہے۔
یہی سبب ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی نشیب و فراز کے باوجود فکری صحت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ مختلف اوقات میں جبر تیز ہوا، تنظیمی ساختیں بدلیں، تزویراتی ترجیحات ایڈجسٹ ہوئیں مگر ایک چیز قائم رہی کہ بلوچ نوجوان اپنے عمل کو خود نام دیتا رہا اور اس نام کے تحت اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا رہا۔ یہ احساس ہی وہ عمارت ہے جس پر میٹاپالیٹکس کھڑی رہتی ہے۔ اسی لیئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان فوجی اور انتظامی دائرے میں جتنی بھی طاقت صرف کرے، جب تک وہ بلوچ کی معنوی خودمختاری کو شکست نہیں دیتا وہ اس جنگ کو ختم نہیں کر سکتا۔ اور معنوی خودمختاری طاقت سے نہیں، دلیل اور نمائندگی کے حق سے چھینی جاتی ہے، جسے بلوچ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اسی منزل پر پہنچ کر تحریک آزادی ایک طویل اشارہ کرتی ہے کہ جنگ اسی وقت رکے گی جب بلوچ اپنی شرائط پر سیاسی نظم کی تشکیل کرے گا۔ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیئے کسی جذباتی دعوے کی نہیں بلکہ اس پورے فکری سفر کی شہادت درکار ہے جو گزشتہ دو دہائیوں میں قائم ہوئی اور جس نے اس جدوجہد کو ایک مسلسل فکری صورت دے دی ہے۔
اس فکری برتری کو قائم رکھنے کے لیئے سب سے بڑا امتحان خود اپنے فکری حلقوں میں سامنے آتا ہے۔ یہ تاریخ بار بار دہرائی جاتی ہے کہ جب بھی تحریک ایک نئی شدت کے ساتھ ابھرتی ہے، جب نوجوانوں کا ایک حصہ اپنی جان کو دلیل بنا کر موجود نظم پر ضرب لگاتا ہے، تو داخلی بلوچ دانش کے کچھ حصے اس شدت کو جذباتی پن کا نام دیتے ہیں۔ کبھی اسے ناپختگی کہا جاتا ہے، کبھی غیر سیاسی رویہ، کبھی معاشی مفاد پرستی، کبھی بیرونی ہاتھ۔ یہ تبصرے صرف رائے نہیں ہوتے بلکہ میٹاپالیٹکس کے توازن پر اثر انداز ہوتے ہیں، کیونکہ جو زبان کسی عمل کی تشریح میں اختیار کی جائے وہی زبان بعد ازاں اس عمل کے اخلاقی مفہوم کا فیصلہ کرتی ہے۔
مثالوں کی فہرست طویل ہے۔ ایک دور میں جب کارروائیاں پہلی مرتبہ شہری مراکز میں دکھائی دیں تو کہا گیا کہ یہ ردعمل وقتی ہے، اس میں منصوبہ نہیں، سرحد پار سے ہوا دیا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ گذرا، وہی مراکز ایک نئی تنظیمی عقل کے ساتھ دکھائی دینے لگے تو انہی آراء نے رخ بدلا اور کہا گیا یہ مزاحمت اب پختہ ہو رہی ہے اور ہمیں اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے۔ بلوچ داخلی دانش کا یہ الٹا سفر مسلسل دیکھا گیا کہ ابتدا میں انکار، پھر شک، پھر خاموش حمایت، اور آخر میں یہ تاثر کہ ابتدا سے یہی کہا جا رہا تھا۔ اس رویے نے نوجوان کو دوہرا بوجھ دیا۔ وہ ایک طرف ریاستی قوت کے سامنے کھڑا تھا، دوسری طرف اپنی ہی علمی برادری کی بدگمانی کو سہہ رہا تھا۔
میٹاپالیٹکس کے لحاظ سے یہ بدگمانی محض اخلاقی مسئلہ نہیں بلکہ ایک علمی رخنہ ہے، کیونکہ اس سے وہ معنوی مرکز جس پر تحریک قائم ہوتی ہے کمزور پڑتا ہے۔ جب داخلی بلوچ دانش کسی عمل کو جذبات کا ترجمان بتاتی ہے تو حقیقتاً وہ اس عمل سے استدلال کا حق چھین لیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے قربانی کے پاس دلیل نہیں، جیسے مزاحمت کے پیچھے کوئی اجتماعی شعور نہیں۔ اس کے بعد وہی خلا طاقتور بیانیہ بھر دیتا ہے جو قابض کے پاس پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ دشمن کسی عمل کو شدت پسندی کہتا ہے تو اندر کی آواز بھی احتیاطاً اسی لفظ کو دہرانے لگتی ہے۔ وہ کسی کارروائی کو دہشت گردی کہتا ہے تو اپنی سماجی گفتگو میں بھی یہی نام سرایت کرجاتا ہے۔ وہ اسے بیرونی سازش قرار دیتا ہے تو ہماری تشریحات میں بھی کسی نہ کسی موڑ پر یہی امکان جگہ پا لیتا ہے۔ اس پورے عمل میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے وہ نوجوان کی اخلاقی جرات ہے۔ اس کے سامنے دو صفیں بنتی ہیں۔ ایک وہ جس میں وہ دشمن کو دیکھتا ہے اور جانتا ہے۔ دوسری وہ جس میں وہ اپنے لوگوں کو دیکھتا ہے مگر یقین کھو بیٹھتا ہے۔ یقین کے بغیر سیاسی نظم ممکن ہے مگر مزاحمت نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب بلوچ دانش کا ایک حصہ اپنی تشریح میں احتیاط کے نام پر ریاستی تصور کو دہراتا ہے تو وہ نادانستہ طور پر میٹاپالیٹکس کو طاقتور کے حق میں موڑ دیتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیئے کسی جذباتی موقف کی نہیں بلکہ علم کے بنیادی اصول کی طرف لوٹنا ہوگا۔ علم کا پہلا قاعدہ یہی ہے کہ موضوع اپنے مفہوم کی اولیٰ شہادت دیتا ہے۔ جب موضوع خود نوجوان بلوچ ہے اور اس کا عمل ایک اجتماعی شعور کا اظہار بن رہا ہے تو اس کی شہادت کو محض نفسیاتی ابال قرار دینا علم کے منصب کے خلاف ہے۔
یہیں پر وہ تاریخی مثالیں بھی نظر آتی ہیں کہ جب تحریک کی نئی لہر کامیاب ٹہرتی ہے تو وہی چنیدہ بلوچ دانش اس سے اپنی وابستگی ظاہر کرتی ہے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ میں پہلے دن سے اس شدت کے حق میں تھا، کوئی یہ کہتا ہے کہ میں نے ہمیشہ مزاحمت کی حمایت کی ہے۔ مگر اس اعتراف میں وہ وقت غائب ہوتا ہے جب شک کی تلوار تیز تھی، جب لفظوں کے ذریعے عمل کو بے منطق ثابت کیا جا رہا تھا۔ میٹاپالیٹکس اس یادداشت کو محفوظ رکھتی ہے اور اسی کے سہارے مستقبل کے لیئے رہنمائی نکلتی ہے کہ علمی طبقہ کب طاقتور بیانیئے کا ذریعہ بنتا ہے اور کب اپنی قوم کے سہارے میں کھڑا ہوتا ہے۔
یہاں یہ دلیل بھی قائم کرنی ہوگی کہ جب کوئی بلوچ دانشور کسی جدوجہد کو بار بار جذباتی پن، دہشت گردی، شدت پسندی یا بیرونی سازش کہہ کر بیان کرتا ہے تو وہ صرف لفظ نہیں چن رہا بلکہ ایک ذہنی سانچے کی پیروی کر رہا ہے جس کی تشکیل قابض نے کی ہے۔ قابض نے اپنے اداروں، اپنے میڈیا اور اپنی نصابی حکمت عملی کے ذریعے ان اصطلاحات کو اخلاقی وزن دیا ہے۔ اگر ہم انہی تراکیب میں بات کریں گے تو نزاع کی تعریف وہی رہے گی جو ریاست طے کرتی ہے۔ اس طرح ہم بحث کا دائرہ بدلنے کے بجائے اسی دائرے میں الجھتے رہیں گے جہاں سے طاقت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ علمی دیانت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم مفاہیم کی سطح پر خود مختار ہوں۔ کسی عمل کی نام گذاری ہمارے تاریخی تجربے اور اجتماعی بصیرت سے ہو، نہ کہ تیار شدہ خانوں سے۔ یہی تبدیلی میٹاپالیٹکس میں فیصلہ کن برتری کا سبب بنتی ہے۔
میٹاپالیٹکس کوئی مبہم تصور نہیں۔ اس کی شناخت ممکن ہے اور اس کے پیمانے مرتب کیئے جاسکتے ہیں۔ پہلا پیمانہ یہ ہے کہ ایک قوم اپنی جدوجہد کے مفہوم پر کتنی خود مختاری رکھتی ہے۔ اگر نام رکھنے کا حق کسی اور کے پاس ہو تو سیاسی انتظام ممکن ہے، مگر آزادی کا شعور ادھورا رہتا ہے۔ موجودہ بلوچ تحریک نے اس پیمانے پر اپنی حیثیت منوالی ہے۔
فکری برتری صرف اس وقت قائم رہ سکتی ہے، جب داخلی بلوچ دانش اپنی زبان کی ذمہ دار ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصطلاحات جو طاقت نے ہمارے اردگرد بچھا رکھی ہیں انہیں بلا تنقید اپنایا نہیں جائے۔ جذباتی پن کا فیصلہ وہی کرسکتا ہے جو کسی اجتماعی عمل کے سیاق و سباق کو سمجھتا ہو۔ دہشت گردی کی تعریف اس کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہیئے جس کی حکومت تلوار سے قائم ہے۔ شدت پسندی کی کھڑکی سے دیکھنا تب درست ہوگا جب ہم شدت کی اصل وجہ، طاقت کے ارتکاز اور انصاف کی غیرموجودگی کے بارے میں پہلے سے متفق ہوں۔ بیرونی سازش کا خانہ اس وقت بنتا ہے جب داخلی وجوہ کو نظر انداز کرکے آسان حل تلاش کیا جائے۔ ان سب نکات کو علمی طریقے سے پرکھنے پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب بلوچ دانش ان نعروں میں کسی عادت یا خوف کے تحت بات کرتی ہے تو وہ میٹاپالیٹکس کے میدان میں اپنی قوم کے حق کو کم کرتی ہے اور قابض کے حق کو بڑھاتی ہے۔
موجودہ بلوچ مسلح مزاٍحمت کی سب سے بڑی حیثیت یہی ہے کہ اس نے آزادی کے امکان کو زندہ رکھا ہے۔ اس امکان کی زندگی اعداد وشمار سے ثابت نہیں کی جا سکتی، یہ اس بات سے پہچانی جاتی ہے کہ کوئی قوم اپنے آپ کو حق بجانب محسوس کرے اور اپنے حق کے بیان میں مسلسل اور مستقل ہو۔ یہی مستقل احساس ہی مستقبل کی سیاست کی بنیاد بنتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وہی جدوجہد دیرپا سیاسی انتظام تک پہنچتی ہے، جس نے پہلے اپنے مفہوم پر خود مختاری حاصل کی ہو۔
مستقبل میں بلوچ دانش کی ذمہ داری دوہری ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے تجزیئے کو خوف یا مصلحت کے بجائے علمی معیار پر رکھے۔ دوسرا یہ کہ وہ نوجوان کی قربانی کو صرف تجربہ نہیں بلکہ گواہی سمجھے۔ گواہی ایک ایسی دلیل ہے جسے رد کرنے کے لیئے شاید کوئی اور تجربہ پیش کرنا پڑے۔ اگر داخلی دانش اس گواہی کو بے وزن کر دے گی تو وہ وہی خلا پیدا کرے گی جسے پھر طاقت کا بیانیہ پُر کرے گا۔ اس کے برعکس اگر وہ اس گواہی کو سمجھ کر نئی سیاسی عقل وضع کرے گی تو میٹاپالیٹکس میں برتری مزید مستحکم ہوگی اور سیاسی سطح پر راستہ بھی اسی تناسب سے کھلے گا۔
آخری بات یہ کہ اس پوری بحث کا مقصد کسی کو مطعون کرنا نہیں بلکہ ذمہ داری کی طرف توجہ دلانا ہے۔ علمی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم لفظ کا اخلاقی بوجھ پہچانیں۔ جس نام سے کسی عمل کو یاد کریں گے اسی نام کے تحت اس کے نتائج فہم میں آئیں گے۔ اگر ہم اپنے ہی نوجوان کے عمل کو تیار شدہ خانوں میں رکھیں گے تو ذہن پر وہی پیٹرن بیٹھے گا جو طاقت کو سہولت دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے تاریخی شعور سے نئے مفاہیم وضع کریں گے تو ذہن پر وہ نقش قائم ہوگا جو آزادی کی سمت میں رہنمائی کرے گا۔ یہی میٹاپالیٹکس کی روح ہے۔ یہی وہ روح ہے جسے موجودہ تحریک نے قائم رکھا اور اسی کے سہارے وہ جیت رہی ہے۔ اس جیت کی پہچان یہ نہیں کہ جنگ ختم ہوگئی بلکہ یہ ہے کہ جنگ کا مفہوم ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جب مفہوم اپنے ہاتھ میں ہو تو وقت ہمارا ہو جاتا ہے۔ وقت جب کسی قوم کا ہو تو سیاست ایک دن اس کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔ یہی وہ فکری ذمہ داری ہے جو ہر سنجیدہ قاری کے حصے میں آتی ہے کہ وہ اپنے لفظوں، اپنے فیصلوں اور اپنے معیار کو اس شعور کے مطابق بنائے جس میں آزادی پہلے خیال بنتی ہے پھر دستور اور پھر نظام۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔