بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی حالتِ زار – مہراب بلوچ

26

بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی حالتِ زار

تحریر: مہراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج کے دور یعنی 21ویں صدی میں تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ اس دورِ جدید کے تقاضوں کو صرف تعلیم ہی پورا کر سکتی ہے۔ اسی وجہ سے ہر ملک اس کوشش میں ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہترین بنا سکے۔ تعلیمی اداروں میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق طلباء کی رہنمائی کی جاتی ہے، نئے علمی و تحقیقی ادارے کھولے جاتے ہیں جن سے طلباء علمی و تحقیقی عمل میں مشغول رہتے ہیں وغیرہ۔

مگر بدقسمتی سے ہم (بلوچ) ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے بجائے تعلیمی اداروں میں طلباء ہراسمنٹ و دیگر تعلیمی مسائل کے شکار ہیں۔ خاص کر اگر بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے تو ہر وقت آپ کو مسائل ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کبھی اسٹوڈنٹس کو ہاسٹلز سے بے دخل کر کے نکالا جاتا ہے تو کبھی اُن کو اپنے علمی، تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں سے روکا جاتا ہے یا پھر اُن کے اسکالرشپس کو بند کیا جاتا ہے یا کبھی اداروں کی بندش کے واقعات پیش آتے ہیں جن کی مثال گزشتہ دفعہ بی ایم سی اور جامعہ بلوچستان کی بندش سے دی جا سکتی ہے۔

حال ہی میں 16 ستمبر یعنی بلوچ قومی شاعر واجہ مبارک قاضی کی دوسری برسی کے موقع پر بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنے تمام زونز کو ہدایت جاری کی تھی کہ مبارک قاضی کے نام پر علمی و ادبی پروگرامز منعقد کر کے قاضی کے ادبی کام کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے، جس پر بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اُتھل زون کی طرف سے ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بھاری پولیس نفری طلب کر کے طلباء کے پروگرام کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ اگلے صبح ہی سات طلباء کو معطل کر دیا گیا جن میں سے ایک کو ایک سال جبکہ دیگر دو طلباء کو دو سال کے لیے رسٹریکٹ کیا گیا۔ جب طلباء نے ان اعمال کے خلاف آواز بلند کی اور ایک پرامن احتجاجی کیمپ لگایا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے اُن کے مطالبات سننے کے بجائے بھاری پولیس نفری بلا کر اُن پر کریک ڈاؤن کیا، اُن پر اسٹریٹ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان طالب علم جو بڑے خواب لے کر یونیورسٹی آیا تھا شدید زخمی ہو گیا اور دیگر ایک درجن سے زائد طلباء کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔

اسی طرح بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی خضدار کی انتظامیہ کی طرف طلباء کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹی میں بنیادی سہولیات کی فقدان ہے جیسے کہ اسٹیڈی ٹورز، اسکالرشپس، انٹرنیٹ، بجلی، رہائشی ہاسٹلز وغیرہ۔ طلباء نے اپنے حقوق کی خاطر ایک پرامن احتجاجی کیمپ لگایا ہے لیکن بدقسمتی سے یونیورسٹی انتظامیہ اُن کے مطالبات ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اُنہیں ہراسگی و دھمکی کا شکار کیا جا رہا ہے۔

یہ اعمال اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ تمام ہتھکنڈے بلوچ طلباء کو تعلیم سے محروم کرنے کے لیے استعمال میں لائے جا رہے ہیں تاکہ بلوچ طلباء اس دور میں بھی تعلیم سے دور رہیں۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آج ہم نے اس ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تو آنے والے وقت میں بلوچ طلباء کو ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہمارے اساتذہ و دانشوروں، طلباء تنظیموں، اور دیگر طبقے کے لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس تعلیم و علم دشمنی کو دنیا کے سامنے لائیں تاکہ پوری دنیا ریاست کی حقیقت کو سمجھ سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔