برطانیہ میں مقیم بلوچ ڈائیسپورا کے ارکان نے 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر احتجاج کیا، تاکہ بلوچستان میں پاکستانی ریاست کی جانب سے جاری فوجی کارروائیوں خاص طور پر ضلع خضدار کے علاقے زہری میں حالیہ پرتشدد کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کی جا سکے۔
مظاہرے کا مقصد عالمی برادری کی توجہ بلوچ شہریوں کے خلاف ریاستی تشدد کی منظم مہم کی طرف مبذول کروانا تھا۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور پاکستان کی فوجی کارروائیوں اور ڈرون حملوں کے خلاف نعرے بازی کی، جن کے نتیجے میں متعدد معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، جاں بحق ہو چکے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں زہری کا علاقہ تشدد کا مرکز بن چکا ہے، جہاں پاکستان آرمی کی جانب سے جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ پورے کے پورے دیہات پر چھاپے مارے گئے، گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا اور غیر مسلح شہریوں کو انسدادِ بغاوت کے نام پر نشانہ بنایا گیا۔
مظاہرین نے کہا کہ آج کا احتجاج صرف ایک علاقے کے لیے نہیں، بلکہ عشروں پر محیط ریاستی بربریت کے خلاف ہے۔ لیکن اس وقت زہری میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک انسانی المیہ ہے۔ بچے قتل کیے جا رہے ہیں، خاندان بے گھر ہو رہے ہیں اور دنیا خاموش ہے۔
یہ احتجاج ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔
کارکنوں نے برطانوی حکومت اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بند کی جا سکیں۔
مظاہرے کے منتظمین کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج ایک وسیع مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد ان بلوچوں کی آواز کو دنیا تک پہنچانا ہے جنہیں طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔
مقررین نے کہا:
“ہم آج یہاں ان لوگوں کی آواز بننے کے لیے کھڑے ہیں جن کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ بلوچستان کے عوام کو انصاف، عزت اور امن کا حق حاصل ہے۔