یو این سیکورٹی کونسل اور بی ایل اے۔۔۔ ہم کیا جانتے ہیں؟ – بامسار بلوچ

194

یو این سیکورٹی کونسل اور بی ایل اے۔۔۔ ہم کیا جانتے ہیں؟

بامسار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سترہ ستمبر کو افغانستان کی صورتحال پر منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اجلاس میں پاکستانی مستقل نمائندہ برائے اقوام متحدہ عاصم افتخار احمد نے اپنے بریفنگ کے دوران کہا کہ “پاکستان نے چین کے ساتھ مشترکہ طور پر یو این سیکورٹی کونسل کی (1267) سینکشن کمیٹی کو باضابطہ طور پر درخواست دی ہے کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد قرار دیا جائے اور ہمیں امید ہے کہ کونسل اس پر پوری طور پر عمل کرے گی”۔

اسی طرح 26 ستمبر کو یو این جنرل اسمبلی میں پاکستان کے کٹھ پتلی وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ بیس سالوں سے ہم دہشت گردی کے شکار ہیں اور مجموعی طور پر اس جنگ میں ہم نے 90 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے، انہوں نے جعفر ایکسپریس حملے کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے افغانستان اور انڈیا کی مدد سے پاکستان میں متحرک ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بی ایل اے صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے اس لیے دنیا کو چاہیے اس جنگ میں پاکستان کی حمایت کرے۔

یو این سیکورٹی کونسل اور یو این جنرل اسمبلی میں عاصم افتخار احمد اور شہباز شریف نے پاکستان کی تاریخی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح ریاست کے تمام بحران اور ناکامیوں کو افغانستان اور انڈیا پر ڈال دیا۔ پاکستان کی مجموعی صورتحال سے واقف یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملکی معاشی، سیاسی یا دفاعی ناکامیوں کا الزام بیرونی ممالک اور خاص کر ہمسایوں پر لگانا پاکستان کی بنیادی پالیسی کا مستقل حصہ ہے، جس سے ایک تو ریاست اور فوج اپنی اندرونی ناکامیاں چھپاتی ہیں تو دوسری طرف اسی فریب کے ذریعے عوام کو خود ساختہ بیرونی دشمنوں سے ڈرا کر اپنا قبضہ برقرار رکھتے ہیں۔ ریاست کی یہی الزام تراشی کی روایت اب معمول بن کر سیاست و عام زندگی میں ایک تلوار کی صورت ہر شہری پر لٹک رہی ہے، جہاں چھوٹی سی سیاسی یا ذاتی اختلافات پر لوگوں کو بیرونی ایجنٹ یا توہین مذہب جیسے سنگین الزام لگا کر آسانی سے موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے یا کہ جیل کر دیا جاتا ہے۔ ریاست کی جانب سے بیرونی ممالک پر الزام تراشی کوئی نئی بات نہیں، تاہم اقوام متحدہ میں مسلسل بی ایل اے کا ذکر کرنا اور یو این سیکورٹی کونسل میں چین کے ساتھ مل کر باضابطہ طور پر بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دلوانے کی کوشش یقینی طور پر ایک نئی پیش رفت ہے۔

اس تحریر میں ہم اقوام متحدہ، یو این سیکورٹی کونسل، (1267) سینکشن کمیٹی اور ان کے ضابطہ کار کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

یو این یا اقوام متحدہ کیا ہے؟

United Nations یعنی اقوام متحدہ کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد 26 جون 1945 کو ہوا جس میں مرکزی کردار اتحادی ممالک امریکہ، چین، روس اور برطانیہ کا تھا جن کو اُس وقت Big Four بھی کہا جاتا تھا۔ انہی چار ممالک نے 1943 میں ہونے والی ماسکو کانفرنس کے دوران ایک متفقہ فیصلہ کیا کہ دنیا میں قیام امن اور مزید عالمی جنگوں کو روکنے کے لیے جتنی جلد ممکن ہو سکے ایک عالمی تنظیم تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں تمام امن پسند ریاستیں برابری اور خود مختاری کی بنیاد پر شامل ہو سکیں گی۔

اس فیصلے کو عملی جامع پہنانے کے لیے ایک سال بعد واشنگٹن میں (1944) Dumbarton Oaks کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اقوام متحدہ کی ابتدائی ساخت، مقاصد اور ضابطہ کار کا ایک بنیادی خاکہ تیار کیا گیا۔ اس کانفرنس میں چاروں ممالک کے نمائندوں نے اپنے تجاویز پیش کیے اور بحث و مباحثہ کے بعد اتفاق ہوا کہ اقوام متحدہ کی بنیادی ڈھانچہ جنرل اسمبلی، سیکورٹی کونسل، عالمی عدالت اور یو این سیکرٹریٹ پر مشتمل ہوگا۔ جبکہ سیکورٹی کونسل کے ووٹنگ کی طریقہ کار پر کچھ اعتراضات ہوئے جنہیں چار مہینے بعد فروری 1945 کو Yalta کانفرنس میں حل کیا گیا اور اسی کانفرنس میں ایک عالمی کانفرنس رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں ان تمام ممالک کو دعوت دینے پر اتفاق ہوا جو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کے مخالف تھے۔ اس عالمی کانفرنس کی انعقاد کا مقصد یو این چارٹر کو ترتیب دے کر اقوام متحدہ کو قائم کرنا تھا۔

یاد رہے اس سے قبل بھی ایک عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز کے نام سے وجود رکھتی تھی لیکن وہ قیام امن میں موثر ثابت نہ ہو سکی اور دوسری جنگ عظیم کو روکنے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ کا بنیادی آئیڈیا اُسی تنظیم سے لیا گیا ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں یو این اُسی تنظیم کی ارتقائی شکل ہے۔

Yalta کانفرنس کے تین ہفتے بعد دوسری جنگ عظیم کے تمام اتحادی ممالک کو عالمی کانفرنس United Nations Conference on International Organization کے لیے San Francisco میں دعوت دیا گیا تاکہ مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کے چارٹر کو مکمل ترتیب دے کر دستخط کیے جائیں۔ اس عالمی کانفرنس کا آغاز 25 اپریل 1945 کو ہوا جس میں مختلف کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جو تمام ممالک کے ممبران پر مشتمل تھیں، جنہوں نے باریک بینی سے یو این چارٹر کی بنیادی ساخت (جسے امریکہ، روس، چین اور برطانیہ نے ترتیب دیا تھا) پر بحث و مباحثہ کیا، کئی اعتراضات اٹھائے گئے، نئے شقوں کا اضافہ کیا گیا اور کئی تبدیلیاں لائیں گئیں۔

یہ تاریخ کی سب سے بڑی کانفرنسوں میں ایک تھی جس میں میزبان ممالک چین، امریکہ، روس اور برطانیہ سمیت پچاس ممالک کے 850 نمائندے اور مختلف شعبوں کے ماہرین کے ساتھ مشاہدہ، اسٹاف اور صحافیوں کو ملا کر ٹوٹل چھ ہزار سے زائد لوگ شریک تھے۔ یو این کے چارٹر کو تیار کرنے میں دو مہینے کا وقت لگا جس کے سبب مذکورہ کانفرنس باسٹھ دن تک مسلسل چلتی رہی۔

بالآخر 26 جون کو تمام ممالک نے یو این چارٹر پر دستخط کر دیے جس سے کانفرنس کا اختتام ہوا۔ تاہم کچھ ممالک کو ملکی قانون کے تحت قومی اسمبلی سے چارٹر کی منظوری لینی تھی جس کے باعث کچھ تاخیر کے بعد 24 اکتوبر 1945 کو یو این چارٹر باضابطہ طور پر لاگو ہوا اور اسی دن کو آج بھی اقوام متحدہ کا دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

چارٹر یو این کا بنیادی منشور اور آئین ہے۔ اس میں یو این کے تمام اغراض و مقاصد واضح کیے گئے ہیں اور یو این کا ہر عمل اسی کے تابع ہے۔ یو این چارٹر کی دیباچہ کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ “ہم اقوام متحدہ کے ممبرز اس امر کا عزم کرتے ہیں کہ ہم نے آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانا ہے جیسے پہلے دو عالمی جنگوں نے انسانیت کو ناقابل بیان دکھ اور تباہی پہنچائی۔ اور یہ کہ ہم تمام بنیادی انسانی حقوق، مرد و خواتین کی مساوی حیثیت، تمام چھوٹے اور بڑے اقوام کی برابری اور انسان کی عظمت اور حرمت پر یقین رکھتے ہیں، اور ہم ایسے حالات پیدا کریں گے کہ انصاف اور احترام کے ساتھ تمام عالمی قوانین اور معاہدات کی پاسداری کی جائے گی، اور سماجی ترقی و آزادی کو فروغ دے کر انسانی معیارِ زندگی کو بہتر بنائیں گے”۔

یو این چارٹر کی پہلی آرٹیکل کے مطابق اقوام متحدہ کے درج ذیل مقاصد ہیں:
شق نمبر 1 — مقاصد
1۔ دنیا میں امن و امان اور بین الاقوامی سلامتی کو برقرار رکھنا، اور اس مقصد کے لیے مؤثر اجتماعی اقدامات کرنا تاکہ امن کو درپیش خطرات کو روکا اور دور کیا جا سکے، جارحیت یا امن شکنی کے اقدامات کو ختم کیا جا سکے، اور بین الاقوامی تنازعات یا ایسے حالات کا پُرامن، منصفانہ اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق تصفیہ کیا جا سکے جو امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہوں۔
2۔ اقوام کے درمیان دوستی اور باہمی احترام کے تعلقات کو فروغ دینا، جو مساوی حقوق اور عوام کے حقِ خود ارادیت کے اصولوں پر مبنی ہوں، اور عالمی امن کو مضبوط کرنے کے لیے دیگر ضروری اقدامات کرنا۔
3۔ معاشی، سماجی، ثقافتی اور انسانی نوعیت کے بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے آپسی تعاون کو فروغ دینا، اور نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تعصب کیے بغیر، تمام انسانوں کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور آزادی کے احترام کو فروغ دینا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔
4۔ ان مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے باہمی ہم آہنگی اور تعاون کا مرکز بننا۔

یو این چارٹر کے مطابق اقوام متحدہ ایک عالمی تنظیم ہے جس کے قیام کا بنیادی مقصد دنیا میں عالمی جنگوں کو روکنا، تضادات کو پرامن طریقے سے حل کرنا، ممالک کے درمیان نزدیکی پیدا کرنا، اقوام و افراد کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کرنا اور دنیا میں انصاف و برابری قائم کرنا ہے۔

یو این جنرل اسمبلی

یو این جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کا مرکزی فورم ہے جو تمام 193 ممبران پر مشتمل ہے اور ہر ممبر کو ایک ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ جنرل اسمبلی میں عالمی صورتحال پر اجلاس ہوتے ہیں، دنیا کو درپیش خطرات پر بحث ہوتی ہے، رکن ممالک اپنے مسائل اجاگر کرتے ہیں، معاشی، سماجی و سیکورٹی صورتحال پر قراردادیں پیش ہوتی ہیں۔ سیکورٹی کونسل کے غیر مستقل ممبرز بھی یو این جنرل اسمبلی سے الیکشن کے ذریعے چنے جاتے ہیں۔ لیکن یو این جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر ممبرز ممالک کا عمل کرنا لازمی شرط نہیں ہے۔ جنرل اسمبلی صرف سفارشات اور تجاویز دے سکتی ہے جن پر عمل کرنا ممبرز ممالک کی سیاسی و اخلاقی فرض ضرور ہے تاہم آئینی و قانونی ذمہ داری نہیں۔ اسی سبب یو این جنرل اسمبلی کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ ایک بے بس باڈی ہے جس کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ 2009 میں اسی چیز پر تنقید کرتے ہوئے معمر قذافی نے یو این میں اپنے تاریخی خطاب میں کہا کہ “جنرل اسمبلی میں ہم سب کی حیثیت صرف شو پیس کی ہے جسے سجاوٹ کے لیے رکھا ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی پاور نہیں ہے”۔

یو این سیکورٹی کونسل

یو این سیکورٹی کونسل اقوام متحدہ کا سب سے طاقتور ادارہ ہے، بلکہ یو این کے تمام اختیارات اسی ادارے کے پاس ہیں۔ سیکورٹی کونسل کا مقصد دنیا میں عالمی امن و سلامتی قائم کرنا ہے۔ ممالک، تنظیموں یا افراد پر پابندیاں لگانا اسی ادارے کے اختیارات میں آتا ہے۔ سیکورٹی کونسل کے پاس ممالک، تنظیم یا افراد کے خلاف معاشی، سفری اور ہتھیار کی لین دین کی پابندی سے لے کر فوجی کارروائی کرنے کا بھی اختیار ہے۔ جنرل اسمبلی کے برعکس سیکورٹی کونسل کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا تمام یو این ممبران پر قانونی شرط ہے۔ سیکورٹی کونسل کے ٹوٹل 15 ممبرز ہیں جن میں پانچ امریکہ، چین، روس، فرانس اور برطانیہ مستقل ممبرز ہیں جبکہ باقی دس ممالک کو یو این جنرل اسمبلی سے الیکشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ ان پانچ مستقل ارکان کو Big Five بھی کہا جاتا ہے۔ حقیقی طور پر یو این میں انہی ممالک کی بادشاہت ہے کیونکہ ایک تو یہ سیکورٹی کونسل کے قیام سے مستقل رکن ہیں جن کو الیکشن کے ذریعے منتخب ہونا نہیں پڑتا جبکہ دوسری طرف ان کے پاس ویٹو پاور بھی ہے۔

ویٹو پاور سے مراد سیکورٹی کونسل میں ان پانچ مستقل ممبران میں سے کوئی بھی اگر ایک قرارداد کو ویٹو کے ذریعے روک لے تو وہ ہرگز پاس نہیں ہو سکتی چاہے باقی چودہ ممبر قرارداد کے حق میں ہوں۔ مطلب روس، امریکہ، چین، فرانس اور برطانیہ کے پاس اتنا اختیار ہے کہ وہ اکیلے ہی کسی قرارداد کو پاس ہونے سے روک سکتے ہیں۔

اسی لیے اقوام متحدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ یو این کے تمام اختیارات سیکورٹی کونسل کے پاس ہیں اور سیکورٹی کونسل کے تمام اختیارات ان پانچ ممالک کے پاس ہیں اور یہ ملک مستقل ممبرز ہیں۔ باقی دس ممالک ووٹ کے ذریعے صرف دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں اور مدت ختم ہونے کے بعد پوری طرح الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ ان دس ممالک کو اپنے خطے کی سیٹ سے الیکشن لڑ کر سیکورٹی کونسل میں آنا ہوتا ہے۔ سیکورٹی کونسل کا رکن بننے کے بعد بھی ان کے پاس ویٹو پاور نہیں رہتا۔ معمر قذافی اپنے تقریر میں اقوام متحدہ کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں “سیکورٹی کونسل خود ہی یو این چارٹر کا متضاد ہے کیونکہ چارٹر کا آغاز ہی اس سے ہوتا ہے کہ تمام چھوٹے اور بڑے اقوام برابر ہیں جبکہ سیکورٹی کونسل میں پانچ ممالک مستقل ممبر ہیں، جن کے پاس ویٹو پاور ہے جو باقیوں کی دس ووٹوں سے بھی زیادہ اثر رکھتا ہے، یہ ممالک ویٹو کے ذریعے اکثریت کے فیصلوں کو رد کر سکتے ہیں جو خود دہشتگردی کی ایک شکل ہے، یہ کونسی برابری ہے”۔

یو این چارٹر بناتے وقت بھی انہی مسائل کے سبب دو مہینہ کا وقت لگا تھا کیونکہ یہی ممالک دوسری جنگ عظیم میں سب سے طاقتور اور اتحادی تھے، انہی نے یو این بنانے کا اقدام لیا تھا، بنیادی خاکہ کی ترتیب سے لے کر قیام تک ہونے والے تمام کانفرنسوں کا خرچہ اٹھایا اسی لیے دوسرے ممالک ان کی سیکورٹی کونسل میں مستقل رکنیت پر انکار نہ کر سکے۔

دوسری طرف سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت بھی انہی کے پاس تھی جو اقوام متحدہ کی کامیابی کے لیے ضروری تھی۔ ویٹو پاور کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر کوئی قرارداد ان بڑے ممالک کے خلاف جائے تو ان طاقتوں کے درمیان جنگ کے خطرات جنم لیتے ہیں جس سے عالمی امن و سلامتی متاثر ہوگی۔ یاد رہے فرانس کا یو این کی قیام میں کوئی خاص کردار نہیں تھا لیکن یو کے نے Yalta کانفرنس میں سفارش کرکے فرانس کو مستقل رکن کی حیثیت سے سیکورٹی کونسل میں شامل کروایا تھا۔

1267 Sanctions Committee

1267 سینکشن کمیٹی یو این سیکورٹی کونسل کی ایک زیلی کمیٹی ہے۔ اس کمیٹی کو سب سے پہلے سال 1999 میں طالبان کے خلاف قائم کیا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے جرم میں طالبان کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔ لیکن بعد میں القاعدہ اور داعش کو بھی اس لسٹ میں شامل کیا گیا جبکہ 2011 میں طالبان کو اس لسٹ سے نکال کر ایک الگ لسٹ میں ڈالا گیا، جس کے بعد اسے داعش اور القاعدہ سینکشن کمیٹی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کمیٹی کسی تنظیم، گروہ یا فرد کو داعش یا القاعدہ کے ساتھ تعلق رکھنے پر کالعدم قرار دے کر اس پر سفری، معاشی اور ہتھیار کی لین دین کی پابندیاں لگاتی ہے۔ مذکورہ کمیٹی یو این سیکورٹی کونسل کے پندرہ ممالک کی نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کوئی بھی ممبر ملک کسی فرد یا تنظیم کو القاعدہ یا داعش سے تعلق رکھنے کے جرم میں کالعدم قرار دلوانے کے لیے اس کمیٹی کو درخواست دے سکتا ہے تاہم درخواست گزار کو وجوہات اور ثبوت بھی پیش کرنے ہوتے ہیں۔ درخواست کے بعد کمیٹی جانچ پڑتال کرکے ثبوتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہے اور کالعدم قرار دینے کی درخواست تب ہی قبول ہو سکتی ہے جب کمیٹی کے تمام ممبران متفق ہوں ورنہ ایک ممبر بھی اتفاق نہ کرے تو درخواست کسی صورت قبول نہیں ہو سکتی۔

1267 سینکشن کمیٹی اور بی ایل اے

ستمبر کے مہینے میں پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر یو این 1267 سینکشن کمیٹی کو باضابطہ درخواست دی ہے کہ بی ایل اے کو کمیٹی کی سینکشن لسٹ میں ڈال کر کالعدم قرار دیا جائے۔ خبروں کے مطابق پاکستان اور چین نے درخواست دینے سے قبل اس کے متعلق یو این مندوبین کو بریفنگ دیے اور دوسرے ممبروں سے بھی لابنگ کی۔

رپورٹس کے مطابق درخواست میں پاکستان نے اندرونی حملوں کو جواز بنایا ہے جبکہ چین نے سی پیک اور اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں کو ڈرافٹ میں شامل کیا۔ تاہم امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے مذکورہ درخواست کو ٹیکنیکل ہولڈ پر رکھا ہے۔ اس کمیٹی کے ضابطہ کار میں دو طرح کے ہولڈ ہوتے ہیں Technical Hold اور Substantive Hold۔ ٹیکنیکل ہولڈ کے بعد چھ مہینے تک درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی جب تک ہولڈ لگانے والے ممالک ہولڈ کو واپس لے کر درخواست قبول یا مسترد نہ کر دیں۔ Substantive Hold کے برخلاف ٹیکنیکل ہولڈ کے بنیادی وجوہات سیاسی یا سفارتی نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس میں دیکھا جاتا ہے کہ درخواست تکنیکی طور پر کمیٹی کے مقاصد، ضابطہ کار اور معیار پر پورا اترتا ہے کہ نہیں۔ اس میں ہولڈ لگانے والے مزید وقت مانگتے ہیں تاکہ درخواست کی تفصیلات کا جائزہ لیں، معلومات کی تحقیق کریں، اپنی ملکی سطح پر وزارت اور انٹیلجنس سے موصول شدہ معلومات اور ثبوتوں کی تصدیق کر سکیں یا درخواست گزار سے مزید معلومات اور ثبوتوں کا تقاضا بھی کر سکتے ہیں۔ اگر چھ مہینے تک درخواست پر کوئی فیصلہ نہ ہوا تو ٹیکنیکل ہولڈ کو مزید تین مہینے تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر نو مہینے بعد بھی ہولڈ لگانے والوں نے درخواست کو مسترد نہیں کیا تو وہ خودبخود منظور ہو جاتی ہے۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق فرانس، امریکہ اور برطانیہ نے اس درخواست کو ٹیکنیکل ہولڈ پر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ 1267 سینکشن کمیٹی داعش اور القاعدہ کے لیے مختص ہے جبکہ درخواست میں بی ایل اے اور داعش کے درمیان تعلقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اب چین اور پاکستان کو چھ مہینوں میں کمیٹی کے سامنے بی ایل اے اور داعش کے درمیان تعلقات کا ثبوت پیش کرنا ہوگا اور اگر نہیں کر سکے تو درخواست مسترد ہو گی۔

داعش نے حال ہی میں بی ایل اے پر اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا اور باضابطہ طور پر نہ صرف بی ایل اے بلکہ تمام بلوچ قوم پرستوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ ایسی صورت میں دنیا کے سامنے بی ایل اے کو داعش کا اتحادی بنا کر ثابت کرنا یقینا آسان نہیں ہوگا۔

بی ایل اے اور داعش بالکل دو متضاد چیزیں ہیں۔ ان کے نظریات و مفادات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ درخواست کسی اور بنیاد پر دی گئی ہے لیکن چونکہ یہ کمیٹی صرف داعش اور القاعدہ سے منسلک افراد اور تنظیموں کے لیے مختص ہے اس لیے کسی اور بنیاد پر بی ایل اے کو کسی صورت اس لسٹ میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ کمیٹی کی مینڈیٹ سے باہر ہے۔

تاہم مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جس لسٹ میں پاکستان بی ایل اے کو شامل کرانے کی کوشش کر رہی ہے اسی لسٹ میں دہشت گردی کے جرم میں پاکستانی فوج کے ترجمان احمد شریف چوہدری کے والد و ستارہ امتیاز یافتہ سلطان بشیر الدین محمود بھی ساتھیوں سمیت شامل ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔