پاکستان کا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کا اعلان

226

پاکستانی وزیر اطلاعات نے افغان طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد ہونے والے مذکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ استنبول میں ہونے والی بات چیت میں بھی قابل حل عمل نہیں نکل سکا۔

افغانستان کی عبوری حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کے حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین استبول میں ہونے والے مذاکرات 25 اکتوبر سے شروع ہوئے تھے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا دوسرا دور تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیر پا امن کے قیام کے لیے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔

تاہم استنبول میں چار روزہ مذاکرات کے بعد منگل کو رات گئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک طویل بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ امن کو ایک موقع دینے کی کوشش میں، قطر اور ترکی کی درخواست پر، پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ پہلے دوحہ اور پھر استنبول میں مذاکرات کیے۔

انھوں نے کہا کہ ان مذاکرات میں ایک نکاتی ایجنڈے یعنی افغان طالبان حکومت کی طرف سے افغان سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کے معاملے پر بات کی گئی۔

وزیر اطلاعات کے مطابق مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان طالبان کے وفد نے شدت پسند تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد اور فیصلہ کن کارروائی کے لیے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبے سے بارہا اتفاق کیا۔

پاکستانی وزیر کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد فراہم کیے گئے جن کا اعتراف افغان طالبان اور مذاکرات کروانے والے میزبان ممالک نے کیا تاہم افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی اور وہ اس بنیادی مسئلے سے انحراف کرتا رہا جس پر بات چیت کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

عطا تارڑ نے افغان طالبان پر ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے الزام تراشی، ٹال مٹول اور چالبازی کا سہارا لینے کے الزامات عائد کیے اور کہا کہ اس وجہ سے بات چیت کوئی قابل عمل حل نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب سے افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا ہے پاکستان نے بارہا ان سے شدت پسند گروہوں کی طرف سے مسلسل سرحد پار دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت کی ہے اور بار بار یہ کہا ہے کہ طالبان حکومت دوحہ معاہدے میں پاکستان اور عالمی برادری سے کیے گئے تحریری وعدوں کو پورا کرے تاہم افغان طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان مخالف دہشت گردوں کی بے دریغ حمایت کی وجہ سے پاکستان کی کوششیں بےسود ثابت ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چار سال تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کے بعد پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے اس لیے پاکستان اپنے عوام کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتا رہے گا اور دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سرپرستوں اور معاونین کو ختم کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت افغانستان کے عوام کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں رکھتی اور جنگی معیشت پر پروان چڑھتی ہے، اس لیے وہ افغان عوام کو ایک غیر ضروری جنگ میں گھسیٹنا چاہتی ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے لیے امن اور خوشحالی کی خواہش کی ہے اور اسی جذبے کے تحت پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ بارہا مذاکرات کیے لیکن بدقسمتی سے وہ ہمیشہ پاکستان کے نقصانات سے لاتعلق رہے۔

وزیر اطلاعات نے بات چیت میں سہولت کاری پر قطر اور ترکی کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ پاکستان خطے کی خوشحالی اور سلامتی اور مسئلے کے پرامن حل کے لیے مخلصانہ کوششوں پر دونوں ممالک اور دیگر دوست ممالک کی حکومتوں کا شکر گزار ہے۔