تحصیل زہری کا محاصرہ
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زہری میں پاکستان فوج فضائی اور زمینی دستوں کے ساتھ، بشمول ٹینک، توپ خانے، گن شپ ہیلی کاپٹر اور ڈرون، وسیع آپریشن کر رہی ہے، اور اب تک گیارہ افراد جان بحق ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچے شامل ہیں۔
گزشتہ دو ہفتوں سے زہری کے کئی علاقے شدید انسانی بحران کا شکار ہیں؛ بیشتر مقامات فوجی محاصرے اور کرفیو میں ہیں۔ شہریوں کی نقل و حرکت اور طبی رسائی معطل ہے، انجیرہ، نیچارہ، نورگامہ اور کمبی کے رہائشیوں کو خوراک، پانی اور اسپتال تک رسائی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
زہری میں کشیدگی کا آغاز 11 اگست کو ہوا جب بلوچ راجی آزادی سنگر کے مزاحمت کاروں نے سخت جھڑپوں کے بعد بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کیا۔ شہر دو ماہ تک مزاحمت کاروں کے زیرِ اثر رہا، اس کے بعد فوجی فضائی اور زمینی کارروائیاں شروع ہوئیں جن سے ہزاروں شہری محصور اور بڑے جانی نقصان کا خطرہ لاحق ہوا۔
فوجی کارروائیوں اور محاصروں سے زہری کے عوام کو صرف مزید کرب اور بے اعتمادی کا سامنا ہے۔ طاقت کے استعمال نے نہ ماضی میں سیاسی اختلافات کو ختم کیا اور نہ اب اس سے کوئی دیرپا استحکام ممکن ہے۔ اگر ریاست واقعی امن چاہتی ہے تو اسے بندوق کے بجائے مکالمے، انصاف اور سیاسی شمولیت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، ورنہ زہری جیسے سانحات بلوچستان کی تاریخ میں ایک اور المیہ بن کر رہ جائیں گے۔