اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے کہتا ہو تمہیں ہتھیار اٹھانے ہوں گے، دشمن صرف بندوق کی ہی آواز سمجھتا ہے ۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

213

بلوچ آزادی پسند رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے تیس منٹ پر مشتمل آڈیو پیغام بی ایل ایف کے میڈیا سیل آشوب پر جاری ہوا ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے پیغام کا آغاز ان الفاظ کیساتھ کیا کہ میں اپنی مظلوم بلوچ قوم کو، جو عالمی اور پاکستانی نوآبادیاتی مظالم کی شکار ہے آپ کی جدوجہد کو سلام۔
شہداء کو سلام، ضمیر کی آواز پر کھڑے ہونے والوں کو سلام، وہ سیاسی کارکن جو جدوجہد میں شامل ہوئے اور جبری طور پر لاپتہ ہوئے، قید میں ڈالے گئے حقوقِ انسانی کے کارکنوں کو سلام، اور بلوچ مجاہدین کو میرا احترام۔

انہوں نے کہا کہ آج میں ایک مختصر پیغام دینا چاہتا ہوں اور واضح کرنا چاہتا ہوں: دنیا کی کوئی طاقت کسی قوم کو آزادی نہیں دیتی، اور نہ ہی اسے تسلیم کرتی ہے جب تک وہ آزادی اُن کے اپنے مفادات سے وابستہ نہ ہو۔ آج لاکھوں بلوچ اپنی سرزمین کی آزادی اور دفاع کے لیے شہید یا جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔ لاکھوں جلاوطنی کا سامنا کر رہے ہیں اور لاکھوں بلوچستان کے اندر بے گھر ہیں۔ میرا کہنا ہے: ہمارا دشمن مکار ہے اسے صرف ہماری زمین سے محبت ہے، ہم سے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ برطانیہ نے ایک زمانے میں ہندوستانیوں اور جنوبی افریقیوں کو “دو ٹانگوں والے جانور” کہا تھا، اور متحدہ ہندوستان میں بنگال کے قحط کے دوران جب لاکھوں ہلاک ہوئے تو برطانوی وزیرِ اعظم چرچل نے کہا تھا کہ اُن کی جانوں کا کوئی تقاضا نہیں ہے۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت کسی قوم کی آزادی، خودمختاری یا اقدار کی پرواہ نہیں کرتی جب تک وہ قوم خود اپنی زمین پر مضبوط طور پر کھڑی نہ ہو۔ سامراجی طاقتوں کے لیے — اور حتیٰ کہ ہمارے اپنے اندر کے ان بلوچ ٹھیکیداروں کے لیے بھی — تمام بلوچ “دو ٹانگوں والے جانور” سمجھے جاتے ہیں، انسان نہیں، کیونکہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ آج ہمارے باشعور نوجوان شہید کیے جا رہے ہیں۔ جو وہ ظاہری قوانین مانتے ہیں وہ انسانی حقوق کی بات نہیں کرتے — وہ صرف اپنی ذاتی مفاد دیکھتے ہیں۔ جو قوتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ آئین کی بالادستی کے نام پر جبری گمشدگان کو بازیاب کروائیں گی، وہ خود انہیں قید میں ڈال دیتی ہیں۔ بی وائی سی، بی این ایم اور بی ایس او کی قیادت اس کی مثالیں ہیں۔ ہمارا کوئی قانون نہیں جب تک ہم خود اپنے پاؤں پر نہ کھڑے ہوں۔

انہوں نے کہہا کہ سب سے پہلے، ایک ڈاکٹر کے طور پر میں عورتوں کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں کہ مرد اور عورت جسمانی اور عقلی اعتبار سے برابر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کی خواتین جنگ کا حصہ نہ ہوں — میں ان خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں، ان بہنوں اور بیٹیوں کو جو آزادی اور انسانی حقوق کے لیے بڑی قربانیاں دے رہی ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے میرا کہنے کا مطلب ہے: آپ کو بندوق اٹھانی ہوگی، کیونکہ یہ دشمن بندوق کی آواز کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج ہماری سرزمین عالمی طاقتوں کے ساتھ بیچی جا رہی ہے۔ یہ پاکستان کے جنرل عاصم منیر اور پارلیمنٹ میں بیٹھے بلوچستان کے ان سرکاری نمائندوں کے لیے رسوائی ہے جو بلوچستان کے وسائل کے نمونے امریکہ میں بیچ رہے ہیں۔ سب اس معاملے پر خاموش ہیں؛ کوئی بھی بلوچستان کا مقدمہ اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا۔ عالمی طاقتوں سے کچھ توقع نہ رکھیں؛ وہ صرف اپنے مفادات دیکھتے ہیں۔ جب تک ان کے مفادات بلوچ آزادی سے جڑے ہوں گے، وہ ہماری حمایت کر سکتے ہیں۔ مگر جب تک بلوچ قوم خود اپنی طاقت پر اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتی، نہ کوئی اسے آزادی دے گا اور نہ ہی کوئی اس کی آزادی روک سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے دوبارہ کہتا ہوں: آپ بلوچ قوم کا پچاس فیصد ہیں۔ آپ کو بھی ہتھیار اٹھانے ہوں گے۔
اگر کرد مسلمان ہتھیار اٹھا سکتے ہیں، اگر دوسری مسلم عورتیں فائٹر جیٹ پائلٹ بن سکتی ہیں تو یاد رکھیں کہ پانچ سو سال پہلے ہماری بانری، گل بی بی اور دیگر نامعلوم رہنما میدانِ جنگ میں لڑے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم عام بلوچوں سے عرض کرتے ہیں: جب کوئی بلوچ مجاہد چاہے وہ بہن ہو، بھائی ہو، چچا ہو، بزرگ ہو یا نوجوان — آپ کے پاس آئے تو اس کی مدد کریں۔ آج ہمارے بہت سے لوگ ہمارے درمیان نہیں ہیں — ان میں پڑھے لکھے، علماء اور یونیورسٹی گریجویٹس شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اعداد و شمار کے مطابق جبری گمشدگان اور قید شدگان کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے۔ ہم شہید ہونے والوں کے اعداد و شمار مرتب کر رہے ہیں۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں محاذ پر لڑنے والے تمام بلوچ مجاہدین کی نمائندگی کرتا ہوں، مگر بطور ایک دوست میں سب سے کہنا چاہتا ہوں: جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتی؛ وہ ذہن اور ٹیکنالوجی سے جیتی جاتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اس کا استعمال کریں۔ گوریلا جنگ کے سوا، ایک باقاعدہ دستے (standing army) کی مانند کھڑے ہو جائیں۔ میں تمام بی ایل ایف ایریا کمانڈز، کیمپ کمانڈز اور ٹیکٹیکل کامبیٹ یونٹس اور بی آر اے ایس کے دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ باقاعدہ فوج کی طرح کھڑے ہوں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بھارت کی آزادی صرف گاندھی کے عدم تشدد کی وجہ سے نہیں ہوئی؛ برطانوی دوسری جنگِ عظیم میں بھاری نقصانات کے بعد ہندوستان سے رخصت ہوئے۔ ہمارا دشمن بے شعور، بداخلاق اور حقیر ہے — وہ بین الاقوامی قوانین سے نابلد ہے اور برطانوی غلامی میں جڑا ہوا ہے۔ جس طرح انگریز نے اس کے ساتھ سلوک کیا، وہی سلوک مظلوم بلوچ قوم کے ساتھ کر رہا ہے۔
میں ایک بار پھر عالمی طاقتوں، بشمول سکیورٹی کونسل کے اراکین اور اپنے نظریاتی دوستوں اور تمام بلوچ قوم سے کہتا ہوں — بلوچستان ایک دلدل بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس زمین میں کسی کا سرمایہ محفوظ نہیں رہ سکتا — خواہ وہ امریکہ ہو یا برطانیہ۔ حال ہی میں عاصم منیر نے ہماری آبا و اجداد کی زمین کو ایک تحفے کی مانند پیش کیا ہے، وہ زمین جسے ہمارے بزرگان نے ماں اور باپ کہا تھا۔ پاکستان آرمی چیف ایک دلالوں میں سے ہے۔ سب کچھ فوج کے کنٹرول میں ہے۔

“جو لوگ خود کو بلوچوں کے خیرخواہ کہتے ہیں جو کہ مضحکہ خیز ہے کہتے ہیں کہ انہوں نے “ایک پروفیسر پکڑا” اور تفتیش کی؛ کون جانے کہ یہ آواز اس کی اپنی ہے یا کسی اور کی؟ وہ کہتے ہیں، “ہم نے تمہیں نوکری دی، ہم نے تمہاری بیوی کو نوکری دی” اور پھر اس پر غداری کا الزام عائد کرتے ہیں۔”

“برطانویوں نے ہندوستانیوں کو بھی نوکریاں دیں ریلوے اور دیگر شعبوں میں — مگر انہیں ماتحت رکھا، مددگار بنا کر راضی رکھا۔ وہ نوکریوں کی بات کرتے ہیں مگر کبھی ہمیں مالک یا حکمران بننے نہیں دیتے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ تمام دنیا اور عالمی طاقتوں سے میرا کہنا ہے: ایسٹ تیمور کی آبادی 1.4 ملین تھی اور اس نے آزادی حاصل کی۔ اگر انہیں تب نہ ختم کیا جا سکا تو آپ بلوچستان کو ختم نہیں کر سکتے — یہ بستیاں کروڑوں کی ہیں۔ آپ لاکھوں کو مار سکتے ہیں، مگر بلوچ نسل ختم نہیں ہوگی اور مزاحمت کرتی رہے گی۔

ڈاکٹر اللہ نذر نے کہا کہ دوبارہ، میں اپنی بہنوں سے کہتا ہوں: ہتھیار اٹھاؤ اور اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاؤ۔

انہوں نے کہا کہ میں انگریزی الفاظ استعمال کرنا چاہتا ہوں: میں اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے درخواست اور اپیل کرتا ہوں کہ نوآبادیاتی طاقتوں اور بین الاقوامی استبلاشمینٹ کے خلاف ہتھیار اٹھائیں تاکہ ہم اپنی آزادی حاصل کر سکیں اور اس ظالم ریاست کی غلامی کے طوق سے نجات پا سکیں۔

“جو بہنیں پنجاب میں بیٹھی ہیں، اور جو بھائی جہاں کہیں بھی ہیں، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آزادی کی جنگ میں شامل ہو جائیں — آپ کی مٹی بلوچستان ہے۔ ہم نے اپنے وطن کے لیے قسم کھائی ہے، جس پر ہمارے آباؤ اجداد نے پانچ سو سال حکومت کی اور دنیا کے حکمرانوں کے خلاف لڑائیاں لڑیں۔ ہم ان کی اولاد ہیں۔ ہمیں اپنی قوم، رسم و رواج اور تاریخ پر فخر ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ایک بلوچ مثال دینا چاہتا ہوں: نواب حبیب اللہ نوشیروانی نے آزادی کے مجاہد نورا مینگل کو انگریز کے حوالے کیا۔ نورا مینگل نے کہا: “بے غیرت سردار، آج یہ زمہ داری میرے سر پر ہے، کل تم سب کے سروں پر ہوگی۔” نورا مینگل اب نہیں ہے مگر اس کے وارث موجود ہیں۔ جیسا کہ نواب اکبر خان نے 2004 میں کہا تھا کہ وہ مر جائے گا مگر دشمن کے سامنے اپنا سر نہیں جھکائے گا — اس کے وارث صرف اس کے اہلِ خانہ نہیں، بلکہ وہ بلوچ قوم کے ایک مجاہد تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ اپنے مجاہدین سے کہتا ہوں: باقاعدہ فوج کی طرح کھڑے ہو جائیں، اور بلوچ قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کی مدد کریں۔ جس کے گھر میں بندوق ہے یا جس کے پاس آٹا ہی ہو، تعاون کرے — کیونکہ تاریخ ظالم اور مظلوم دونوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ ہم جنہوں نے اپنی زندگی گزاری ہے، آج مر جائیں یا کل کیونکہ مجاہدین موت کے ساتھی ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ جہاں بھی کوئی بلوچ اپنے ملک کے لئے جلاوطنی میں بولتا ہے چاہے وہ بانکے کریمہ ہو، ساجد بلوچ ہو یا زبیر عالمی “غیر جانبدار” اور پاکستانی ریاست انہیں قتل کر دیتی ہے۔ یا پھر بزرگ استاد واحد کَمبور جسے میں اس جدوجہد کا بانی اور ہمارا استاد کہتا ہوں جو ستر سال سے زائد عمر کے ہیں اور دل کے مسائل کے ساتھ آج ریاستی قید میں ہیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ان کی قربانی ضائع نہیں ہوگی اور ان کی جگہ خالی نہیں رہے گی؛ وہ خود بھی بلوچ قوم کی مدد اور اتحاد کے ساتھ واپس آئیں گے۔

“میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں یعنی زی جنریشن سے مخاطب ہوں — جو سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند ہیں، چاہے وہ ماہرنگ ہوں یا سمی، جو عدم تشدد کی جدوجہد کر رہی ہیں — غور کریں: اسی دشمن ریاست نے اپنے ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے ایک ساتھی پر حملہ کرکے اسے معذور کر دیا، مگر آج وہ ریاست اسی معذور سے خوفزدہ ہے کیونکہ ایک بڑی قوم اس کے پیچھے کھڑی ہے۔ میں اپنی بہنوں سے کہتا ہوں: ہتھیار اٹھاؤ اور اپنے بھائیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر آزادی کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ ہماری نسل آپ کے ساتھ زندگی بھر، حتیٰ کہ موت تک، کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہے گی۔
میں عالمی طاقتوں کو دوبارہ خبردار کرتا ہوں: بلوچستان یا اس کے معدنی وسائل کا نام تک مت لیں — یہ شہداء کی زمین ہے۔”

بی ایل ایف سربراہ نے کہا کہ ہمارا دشمن ایک لومڑی ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں؛ وہ اپنے جھوٹوں سے اپنی بقاء برقرار رکھتا ہے۔ایک طرف وہ چین سے کہتا ہے، “میں تمہارا ہوں”، اور اس کے پیسے خرچ کرتا ہے۔ چین کا دوسرا مرحلہ بلاک چین ہے، مگر بلوچستان  میں پہلے مرحلے میں چین ایک بھی سڑک مکمل نہیں کر سکا — تو وہ کیسے ریلوے نیٹ ورک تعمیر کرے گا؟ اسی لیے، میں عالمی طاقتوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہر بلوچ آپ کے لیے ایک ٹارگٹڈ میزائل ہے۔ ایک دن کسی دوست نے مجھ سے پوچھا: “کیا انسان ایک ہتھیار ہے، یا بندوق ہتھیار ہے جس کے پیچھے بیٹھنے والا انسان ہے؟” میں نے کہا، نہیں — بلوچ خود ہتھیار ہے؛ اس کا ذہن، جسم اور عزم ہی اس کے حقیقی ہتھیار ہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکلا یہ سراب نہ سوچیں کہ وہ محض بیوروکریٹس ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پنجاب کی سامراجی مشینری کا حصہ ہیں۔ انہیں اپنی حیثیت سمجھے بغیر تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دنیا صرف طاقت کا احترام کرتی ہے، اور ہمیں وہ طاقت حاصل کرنی ہوگی۔ میں دہراؤں گا: پنجاب پہلے ہی فزیولوجیکل طور پر شکست کھا چکا ہے — اور ہم اسے مکمل شکست دیں گے، ان شاء اللہ۔ اس کی فوج پیچھے ہٹ رہی ہے اور اس کے ایجنٹ جا رہے ہیں؛ اس کی شکست نزدیک ہے۔ جب وہ محسوس کریں گے کہ بلوچ قوم آزادی حاصل کر سکتی ہے تو وہ ہماری حمایت کریں گے، جیسے انہوں نے ایسٹ تیمور میں کیا تھا۔ عاصم منیر دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب اسلام کے نام پر قائم ہوئے — یہ ایک کھلا جھوٹ ہے۔ تو پھر دیگر عرب ممالک، افغانستان، ایران اور ساٹھ سے زائد مسلم ممالک کا کیا؟

انہوں نے کہا کہ تم (پاکستان) میں اسلام کی کوئی حقیقی خصوصیت نہیں ہے۔ تم جھوٹ بولتے ہو، سود میں ملوث ہو، درندگی کرتے ہو، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہو اور وعدے توڑتے ہو۔ ہم نے نواب نوروز خان سے سبق سیکھا، جو پہاڑوں سے قرأنِ پاک کے یقین کی بنا پر ریاستی ایجنٹ ڈوڑا خان کے ذریعے نیچے آئے اور بعد میں شہید کر دیے گئے۔ اسی لیے میں عالمی طاقتوں سے درخواست کرتا ہوں: اس دلدل میں قدم مت رکھیں۔ آج پوری بلوچ قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ کوئی کہتا ہے 2 فیصد، کوئی کہتا ہے 3 فیصد — مگر اگر صرف 2 فیصد ہمارے ساتھ کھڑے ہوں تو وہ دو لاکھ بنیں گے، اور اگر 3 فیصد تو تین لاکھ ایک کروڑ میں۔ آپ اس 300,000 رکنی مسلح قوت سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟ وہ پتھر، ہتھیار اور دستیاب ہر وسیلے سے حملہ کر سکتے ہیں۔ آج یہ ایک فریضہ بن چکا ہے۔

اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ میں اقوامِ متحدہ سے کہتا ہوں: “تم نے اپنی ساکھ کھو دی ہے؛ اب تم لیگ آف نیشنز بنتے جا رہے ہو۔” اپنے اختیارات استعمال کرو۔ میں اپنے آزادی پسند مجاہدین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ باقاعدہ فوج بن جائیں۔ ہم اسی درد سے گزر رہے ہیں؛ موت ہمارے ساتھ چلتی ہے، چاہے وہ بم کے حملے کی صورت میں ہو یا گولی کی۔ جہاں بھی ہوں سویڈن، کینیڈا، لندن، بلوچستان یا دبئی ہم کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے زیادہ قابل تو نہیں، مگر انہیں عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے، میں اپنی آبادی کے نصف حصے بلوچ بہنوں اور بیٹیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ باقاعدہ فوج کی طرح کھڑی ہوں۔ آپ حربی حکمتِ عملی، جنگی ترکیبیں اور اسٹرٹیجک مہارت جانتی ہیں۔ آج بلوچستان کی اہمیت اس کی عسکری، دفاعی اور معدنی وسائل میں ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ آج میں پشتون، سندھی، گلگت بلتستان اور پاکستانی قابض کشمیر سے کہنا چاہتا ہوں: آئیں اور آزادی کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ بلوچ قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ میں بلوچ قوم، بلوچ آزادی پسندوں، لاپتہ افراد، سیاسی قیدیوں اور بلوچ بہنوں کی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میں شہید شاری اور دیگر تمام بلوچ بہن شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور آپ سب کو جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ یہ فیصلہ کن لمحہ ہے۔ بلوچ قوم زندہ باد، بلوچ آزادی کی جدوجہد زندہ باد، اور اللہ کرے بلوچستان ہمیشہ سر سبز و شاداب اور خوشحال رہے۔