کیچ فدائی حملے میں قابض فوج کے افسران سمیت 32 اہلکار ہلاک کئے۔ بلوچ لبریشن آرمی

1

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ تنظیم کے فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے بدھ، 18 ستمبر 2025 کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے دشت میں کنچتی کراس کے مقام پر قابض پاکستانی فوج کے ایک بڑے اور بھاری قافلے کو فدائی حملے میں نشانہ بنایا۔ یہ قافلہ چھ بسوں پر مشتمل تھا، جس میں قابض پاکستانی فوج کے درجنوں اہلکار سوار تھے، اور ان کی حفاظت کے لیئے ایک علیحدہ عسکری اسکواڈ بھی ہمراہ تھا۔ قافلہ ایک روز قبل کراچی سے گوادر پہنچا تھا اور حملے کے روز گوادر سے تربت کی جانب روانہ ہو رہا تھا۔ حملہ دوپہر ایک بجکر پانچ منٹ پر ایک منظم منصوبہ بندی، بھرپور معلوماتی تیاری اور مکمل عسکری نظم کے تحت اس وقت انجام دیا گیا جب دشمن غفلت میں تھا، اور بی ایل اے کے فدائین نے پوری مہارت، تدبیر اور جانفشانی سے اس موقع کو دشمن کے خلاف فیصلہ کن حملے میں تبدیل کردیا۔

ترجمان نے کہاکہ مجید بریگیڈ کی فدائی کارروائی کا پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوا، جب فدائی سنگت الطاف عرف چاکر نے بارود سے بھری گاڑی دشمن قافلے کی مرکزی بس سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں ایک بڑا دھماکہ ہوا، بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور اس میں سوار تمام اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ اس دھماکے کے فوراً بعد فدائی سنگت گہرام عرف زگرین اور خلیل عرف کلمیر نے باقی ماندہ بسوں اور حواس باختہ حفاظتی اسکواڈ کو دشمن کے حصار کے اندر گھس کر نشانہ بنایا۔ دشمن کی جوابی فائرنگ کے باوجود دونوں فدائین نے حملے کو جاری رکھا اور دشمن کی نقل و حرکت کو منجمد کر دیا۔ حملہ تیس منٹ سے زائد جاری رہا، اور جب دسیوں دشمن اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد دونوں فدائین کے ہتھیار ختم ہو گئے تو انہوں نے بی ایل اے کے فدائی نظم کے تحت آخری گولی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنی جانیں اپنی قوم اور سرزمین پر قربان کر دیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی کے زمینی ذرائع اور انٹیلی جنس ونگ “زراب” کے مطابق اس حملے میں قابض پاکستانی فوج کے کم از کم 32 اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں، جن میں کئی افسران بھی شامل ہیں۔ اس حملے میں تین سے زائد بسیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں، اور دشمن کو جائے وقوعہ سے لاشیں نکالنے اور زخمیوں کو منتقل کرنے میں کئی گھنٹوں کی تاخیر اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حملے کے بعد دشمن نے جائے وقوعہ پر فوری طور پر فضائی کمک، ڈرون سرویلنس، اور زمینی دستے روانہ کیئے، تاہم مکمل تباہی، تنظیمی انتشار اور گہرے نفسیاتی اثرات کے باعث قابض فوج کو امدادی کاروائیوں میں گھنٹوں کا وقت لگا، جسکی وجہ سے زیادہ تر زخمی فوجی اہلکار موقع پر ہلاک ہوگئے۔ بی ایل اے کے لیئے یہ کارروائی صرف ایک کامیاب حملہ نہیں بلکہ اس یقین کا عملی اظہار ہے کہ دشمن کو بلوچستان کے کسی بھی کونے میں چین و اطمینان میسر ہونے نہیں دیا جائیگا۔

انہوں نے کہاکہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جب ریاست پاکستان اور اس کی اتحادی چین بلوچ قومی تحریک کے خلاف عالمی سطح پر عسکری، سفارتی اور قانونی دباؤ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں پاکستان اور چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی کے تحت بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کی مشترکہ تجویز پیش کی۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ بلوچ مزاحمتی تنظیمیں القاعدہ یا داعش جیسے بین الاقوامی شدت پسند گروہوں سے مربوط ہیں۔ تاہم امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس تجویز مسترد کر دیا، کیونکہ پیش کردہ شواہد نہ صرف ناکافی تھے بلکہ بین الاقوامی قوانین کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے تھے۔ اس مستردی نے نہ صرف پاکستان کے بیانیئے کی کمزوری کو آشکار کردیا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کیا کہ بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی فدائی قوتوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر وہ یکجہتی موجود نہیں جس کا خواب قابض ریاست دیکھتی ہے۔ یہ ایک سفارتی شکست تھی جو ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ ہماری جدوجہد ایک منظم، نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر استوار قومی تحریک ہے، جسے دہشت گردی کے خانے میں رکھنا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی اس فدائی کارروائی میں شہید ہونے والے تین عظیم فرزندانِ وطن کو انتہائی فخر، احترام اور قومی جذبے سے سلام پیش کرتی ہے۔ شہید فدائی سنگت الطاف عرف چاکر ولد عبدالرحمٰن، بلیدہ کے علاقے الندور سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 2023 میں بی ایل اے سے وابستہ ہوئے، اور شہری گوریلا کی حیثیت سے کئی تنظیمی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مختصر وقت میں اپنی قابلیت، دیانت اور عزم سے قیادت کا اعتماد حاصل کیا۔ بعد ازاں پہاڑی محاذ پر منتقل ہوئے اور مجید بریگیڈ میں شامل ہو کر نو ماہ تک عسکری و نظریاتی تربیت حاصل کی۔ ان کی شہادت، قربانی اور فدائی عمل نے مجید بریگیڈ کی تاریخ میں ایک نئی تابندگی پیدا کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ شہید فدائی سنگت گہرام عرف زگرین ولد فاروق، پنجگور کے علاقے پروم، لگاروک سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے 2023 میں بی ایل اے کی صفوں میں شمولیت اختیار کی، اور ابتدا ہی سے اپنی سنجیدگی، ضبط اور خاموش استقلال کے باعث ایک فدائی یونٹ کے لیئے موزوں ترین قرار پائے۔ وہ صرف عسکری اہلیت ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ نظریاتی فہم اور تنظیمی شعور میں بھی بے مثال تھے۔ ان کی شہادت بلوچ نوجوانوں کے لیئے ایک استعارہ بن چکی ہے۔

ترجمان نے کہاکہ شہید فدائی سنگت خلیل عرف کلمیر ولد فضل، تربت کے علاقے سامی، بلوچی بازار سے تھے۔ انہوں نے 2023 میں بلوچ لبریشن آرمی سے وابستگی اختیار کی، اور شہری گوریلا کی حیثیت سے متعدد ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد پہاڑی محاذ پر منتقل ہوئے۔ 2024 میں وہ مجید بریگیڈ کا حصہ بنے اور مختصر مدت میں اپنے فدائی عزم، عسکری سلیقے اور تنظیمی شفافیت کے باعث نمایاں حیثیت حاصل کی۔ ان کی شخصیت اس بات کی عکاس تھی کہ فدائیت جذبے کا نہیں بلکہ شعور کا نام ہے، اور وہ شعور اب ناقابلِ شکست صورت اختیار کر چکا ہے۔

مزید کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی واضح کرتی ہے کہ ہماری تمام عسکری کارروائیاں بین الاقوامی انسانی اور جنگی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے قابض ریاست کے خلاف ایک جائز قومی مزاحمت ہیں۔ قابض دشمن کے برعکس، ہم نہ بیگناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، نہ عوامی املاک کو، اور نہ غیر متحارب قوتوں پر حملے کرتے ہیں۔ ہماری فدائیت اور گوریلا حکمت عملی دشمن کی فوجی قوت، اس کے مراکز، قافلوں، چوکیوں، دشمن کے براہ راست سہولتکاروں، استحصالی ذرائع اور جنگی نیٹ ورک کے خلاف مرکوز ہے۔ ہماری جدوجہد اس اصول پر قائم ہے کہ ایک قابض ریاست کو نہ امن کا حق حاصل ہے اور نہ ہی وہ استحصال کے ساتھ غیر جانبداری کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ مقبوضہ بلوچستان میں جہاں جہاں دشمن کی موجودگی ہوگی، وہاں وہاں شدید حملے و مزاحمت جاری رہے گی۔

بیان کے آخر میں کہاکہ بلوچ لبریشن آرمی اپنے ایلیٹ یونٹ مجید بریگیڈ کی اس فدائی حملے کی مکمل ذمہ داری قبول کرتی ہے اور قابض ریاست کو غیر مبہم الفاظ میں تنبیہ کرتی ہے کہ جب تک بلوچستان پر قبضہ برقرار ہے، ہماری مسلح مزاحمت پوری قوت، نظم اور مقصدیت کے ساتھ جاری رہے گی۔ دشمن کے لیے بلوچستان کی کوئی شاہراہ محفوظ رہے گی نہ قافلہ، کوئی چوکی پر سکون رہے گی نہ کوئی قلعہ۔ ہماری فدائیت محض ردعمل نہیں بلکہ نظریاتی استقامت، عسکری بصیرت اور قومی شعور کی وہ صورت ہے جسے شکست دینا دشمن کی عسکری منصوبہ بندی سے ماورا ہے۔ ہماری گوریلا قوتیں مسلسل تنظیمی تعمیر، جنگی تیاری اور فکری مرکزیت کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ بلوچ مزاحمت اب ایک ناقابلِ واپسی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں ہر حملہ صرف انتقام نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ ہر قربانی صرف جذبہ نہیں بلکہ نظریاتی عہد ہے، اور ہر فدائی صرف سپاہی نہیں بلکہ ایک مکمل انقلابی کردار بن چکا ہے۔ اور جب تک بلوچ سرزمین پر قبضے کا آخری نشان مٹ نہیں جاتا، مزاحمت کا یہ قافلہ اپنی پیش قدمی جاری رکھے گا۔