کوئٹہ خودکش حملے کے بعد اختر مینگل کا مؤقف سامنے آگیا: ہم پر حملوں میں ریاست ملوث ہے

0

بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعت کے رہنما سردار اختر جان مینگل گزشتہ روز ایک خودکش حملے میں محفوظ رہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے جلسے کے اختتام پر ایک خودکش حملہ آور نے ہجوم کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، جس میں محکمہ صحت کے مطابق اب تک 15 افراد جانبحق اور 30 سے زائد زخمی زیر علاج ہیں۔

اس حملے کی ذمہ داری مذہبی شدت پسند گروہ داعش خراسان پاکستان نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی پر حملے کی وجہ ان کی قوم پرست اور جمہوری طرزِ سیاست ہے، جو اسلامی قوانین کے برخلاف ہے۔

رواں سال اختر مینگل پر یہ دوسرا خودکش حملہ ہے اس سے قبل مارچ میں مستونگ کے قریب ان کے دھرنے کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

گزشتہ شب کوئٹہ میں بم حملے کے بعد سردار اختر مینگل نے بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان پر یہ پہلا خودکش حملہ نہیں تھا اس سے قبل جب انہوں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف مستونگ کے علاقے لک پاس میں دھرنا دیا تھا تو اس وقت بھی ایک خودکش حملہ آور نے انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے نہ اس خودکش حملہ آور کو روکا اور نہ ہی اس واقعے کی ٹھوس تحقیقات کیں۔

اختر مینگل کے مطابق لک پاس دھرنے کے دوران ہمارے ساتھیوں نے حملہ آور کو دیکھا تھا لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجود ان ساتھیوں سے یہ تک نہیں پوچھا گیا کہ حملہ آور کا حلیہ کیا تھا یا اس نے کس طرح کے کپڑے پہنے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کل کے واقعے سے پہلے ہمیں جلسے کی اجازت دینے میں بھی رکاوٹیں ڈالی گئیں، کبھی کہا جاتا کہ آج اجازت ملے گی کبھی کل اسی دوران ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی جانب سے ایک قاصد میرے پاس آیا اور بتایا کہ آپ لوگ احتیاط کریں کیونکہ ایک طاقتور شخص آپ کے خلاف تیاری کررہا ہے۔

اختر مینگل کے مطابق میں نے اس قاصد سے کہا کہ جاکر اپنی حکومتی شخصیت کو بتائیں کہ اگر واقعی آپ کو ہماری فکر ہوتی تو میری اور میرے ساتھیوں کی سرکاری سکیورٹی واپس نہ لی جاتی۔

بی این پی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جن طاقتوں کے ظلم و زیادتی کے خلاف ہم آواز بلند کرتے ہیں ہم انہی کے ہدف ہیں لیکن اگر ہم بچ جاتے ہیں تو اس کی وجہ صرف ہمارے لوگوں کی دعائیں ہیں۔