بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے قائم احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری ۔
تنظیم کے ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن نیاز محمد کے قیادت میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کو آج 5934 دن مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر لواحقین اور دیگر نے جبری گمشدگیوں کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ اتوار کو اپنے 34ویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔ لاپتہ نوجوان زاہد علی بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا جواں سال بیٹا 17 جولائی 2025 کی شام لیاری سے لاپتہ کیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، سادہ لباس اہلکاروں نے زاہد کو اُس وقت زبردستی گاڑی میں بٹھایا جب وہ رکشے پر سواری کا انتظار کر رہا تھا۔ واقعے کے بعد سے اس کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔
عبدالحمید بلوچ نے بتایا کہ زاہد نے حال ہی میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز سے گریجویشن مکمل کیا تھا۔ روزگار کی کمی کے باعث وہ محنت مزدوری کرتے ہوئے رکشہ چلاتا تھا تاکہ گھر کے اخراجات پورے کر سکے۔
والد کا کہنا تھامیرا بیٹا محنت کش اور بے ضرر نوجوان ہے، جو اپنی فیملی کے سہارا بنا ہوا تھا۔ لیکن آج وہ ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ اگر اُس پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
انہوں نے رنجیدہ لہجے میں مزید کہا کہ وہ پہلے ہی جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں اور بیٹے کی جبری گمشدگی نے ان کی بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے۔ زاہد کی ماں روزانہ بیٹے کی چیزوں کو دیکھتی ہے اور دروازے پر نظریں جمائے اس کی واپسی کی منتظر رہتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق، کراچی کے مختلف علاقوں سے متعدد بلوچ نوجوان لاپتہ ہیں۔ ان میں ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے سے تعلق رکھنے والے شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ ان نوجوانوں کی گمشدگی سے نہ صرف خاندان شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں بلکہ مالی مسائل میں بھی گھر چکے ہیں۔
عبدالحمید بلوچ نے سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ ان کے بیٹے سمیت تمام جبری طور پر لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کریں۔
ان کے مطابق یہ صرف میرا دکھ نہیں بلکہ ہر اُس ماں باپ کا درد ہے جس کا بیٹا اغوا کر کے لاپتہ کیا گیا ہے۔ اگر ہمارے بچوں پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
احتجاجی کیمپ میں شریک دیگر لواحقین نے بھی حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ لاپتہ نوجوانوں کو فوری طور پر منظر عام پر لایا جائے تاکہ ان کے گھرانوں کی اذیت ختم ہوسکے۔