کراچی پریس کلب کے باہر جبری گمشدگیوں کے خلاف لگایا گیا احتجاجی کیمپ مسلسل جاری ہے اور جمعرات کو اپنے 31ویں روز میں داخل ہوگیا۔
شدید گرمی، حکومتی بار بار کی یقین دہانیوں اور بے شمار مشکلات کے باوجود لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
اس دوران ملیر سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے صادق مراد کی بازیابی اور گھر واپسی کی خبر احتجاجی کیمپ میں شریک خاندانوں کے لیے کسی حد تک امید کا سبب بنی ہے۔
ان کی بازیابی پر لاپتہ بلوچ طالب علم زاہد بلوچ کے والد عبدالحمید بلوچ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صادق مراد کی رہائی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ باقی نوجوان بھی بے گناہ ہیں اور ایک دن ضرور واپس آئیں گے۔
عبدالحمید بلوچ نے مزید کہا کہ کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار تمام نوجوان بے گناہ ہیں، مگر انہیں بلاجواز قید خانوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ نوجوانوں کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ ان پر لگائے گئے الزامات ثابت ہوسکیں۔
یاد رہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے ایک متعدد بلوچ نوجوان جبری گمشدگی کا نشانہ بننے ہیں، ان میں کلری لیاری، ماری پور اور لال بکھر ہاکس بے سے تعلق رکھنے والے زاہد بلوچ، شیراز بلوچ، سیلان بلوچ، سرفراز بلوچ، رمیز بلوچ، رحیم بخش بلوچ اور رحمان بلوچ شامل ہیں۔
اسی طرح ملیر کے علاقے سے میر بالاچ بلوچ بھی کئی ماہ سے لاپتہ ہیں۔
لواحقین کے مطابق نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے کی وجہ سے پورے خاندان شدید ذہنی، معاشی اور سماجی مشکلات سے دوچار ہیں کئی بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے جبکہ خواتین گھروں کی کفالت کے بوجھ تلے پس رہی ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ جب تک انکے پیارے منظرعام پر نہیں لائے جاتے وہ کراچی پریس کلب کے سامنے اپنا دھرنا جاری رکھینگے۔