کتاب: 1984 – تبصرہ: ارشاد شمیم

1

کتاب: 1984
مصنف: جارج آرویل

مترجم: سہیل واسطی | تبصرہ: ارشاد شمیم

دی بلوچستان پوسٹ

جارج آرویل وہ قلمی نام ہے جس نے ایرک آرتھر بلیئر کو خصوصاً ہندوستان بھر میں ایک ناول نگار، نقّاد اور صحافی کے طور پر شہرت دی۔ جارج آرویل متحدہ ہندوستان کی ریاست بہار میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد انڈین سول سروس سے وابستہ تھے۔ لیکن ایک سال کی عمر میں جارج آرویل اپنی والدہ کے ساتھ انگلستان چلے گئے اور کبھی ہندوستان واپس نہ لوٹے۔ برسوں بعد ہندوستان میں ان کی تحریریں ان کے قلمی نام سے پڑھی گئیں اور ان کی کتابوں کے تراجم مشہور ہوئے۔

جارج آرویل کا سنِ پیدائش 1903ء ہے۔ وہ ایک بیدار مغز اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے مصنّف تھے جنہوں نے کمیونزم کو پروان چڑھتے دیکھا، دو عظیم جنگوں کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا اور برطانوی نوآبادیاتی نظام کو بکھرتے ہوئے دیکھا۔ یہ تمام تجربات انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے کتابوں میں محفوظ کردیے جو ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ جارج آرویل عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بھی وابستہ رہے اور اسی زمانے میں دیگر اخباروں کے لیے بھی قلمی نام سے تحریریں لکھتے رہے۔ انہیں ایک ایسا قلم کار کہا جاسکتا ہے جس نے اُس دور کی سیاست اور ثقافت پر طنزیہ اور عمیق تبصرے کیے۔

جارج آرویل نے 1949ء میں اپنے ناول ”1984“ میں ایک تصوّراتی دنیا پیش کی جو دنیا بھر میں شہرۂ آفاق ثابت ہوا۔ اس ناول میں انہوں نے ایک ایسی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے جس میں نگرانی کا غیرمعمولی نظام ہر وقت متحرک رہتا ہے، اور جبر کی فضا ایسی شدید ہے کہ عوام اپنے ذہن میں بھی کوئی ایسی سوچ نہیں رکھ سکتے جو حکومت کے نزدیک قابلِ اعتراض ہو۔ یعنی ہر وہ خیال جو حکومت کی منشا کے خلاف جنم لے گا، اس کڑے پہرہ دار نظام میں گرفت میں آجائے گا اور ایسا فرد سزا پائے گا۔ گویا یہ ناول ایک مطلق العنان حکومت کے مختلف ہتھکنڈوں کو ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے۔

یہ کتاب دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں لکھی گئی ہے، اُس وقت جب یورپ مکمل طور پر اجڑ چکا تھا، برطانوی قوم بھوک اور افلاس میں گھری ہوئی تھی اور مستقبل بھی بے حد تاریک دکھائی دیتا تھا۔ تاہم جارج آرویل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ایسے حالات میں مقابلہ کرنے کا جذبہ بھی دکھایا۔ آرویل کو بخوبی ادراک تھا کہ جابرانہ حکومتوں کو اپنے وجود کے لیے ہمیشہ کسی دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے ناول میں یہ دکھایا کہ عوامی جذبات کو کس طرح استعمال کر کے پروپیگنڈے کے ذریعے نئے دشمن تراشے جاسکتے ہیں۔

جارج آرویل 21 جنوری 1950ء کو وفات پاگئے۔ ان کا ناول ”1984“ دنیا کے اہم ترین ڈسٹوپیائی (Dystopian) معاشروں کی عکاسی کرنے والے شاہکار ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس میں ایک ایسے آمرانہ اور جابرانہ نظام کی تصویر دکھائی گئی ہے جہاں فرد کی آزادی، سوچ اور حتیٰ کہ محبت تک ریاست کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔

“بگ برادر” (Big Brother) مکمل نگرانی اور طاقت کی علامت ہے۔ آرویل نے “نیوز اسپیک” (Newspeak) کے ذریعے دکھایا کہ زبان کو محدود کر کے سوچ کو بھی محدود کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر الفاظ ہی نہ ہوں تو انسان حقیقت کو ظاہر ہی نہیں کرسکتا۔

ناول میں ریاست افراد کو خوف اور تشدد کے ذریعے مطیع بناتی ہے، اور “کمرہ نمبر 101” اس حد کی علامت ہے جہاں انسان اپنے سب سے بڑے خوف کے آگے جھک جاتا ہے۔

اسی طرح “وزارتِ سچائی” اس بات کی علامت ہے کہ طاقتور طبقہ حقائق کو اپنی مرضی کے مطابق گھڑ سکتا ہے اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر سکتا ہے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سچائی ہی مسخ کردی جائے تو انسان کے پاس باقی کیا رہ جاتا ہے؟

اگرچہ یہ ناول 1949ء میں لکھا گیا تھا، لیکن آج بھی یہ ڈیجیٹل نگرانی، پروپیگنڈہ میڈیا اور طاقت کے مراکز پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ یہ ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ آزادی اور پرائیویسی کی حفاظت کتنا بڑا چیلنج ہے۔

یوں ”1984“ صرف ایک ادبی شاہکار نہیں بلکہ انسانی آزادی اور طاقت کے جبر پر ایک فلسفیانہ و سیاسی تنقید ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر طاقت پر قابو نہ رکھا گیا تو انسانیت اپنی اصل قدریں کھو بیٹھے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔