چیئرمین زبیر بلوچ کا ماورائے عدالت قتل بلوچ نسل کشی پالیسی کا تسلسل ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

71

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ دالبندین میں چیئرمین زبیر بلوچ کی ریاستی فوج کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل بلوچ نسل کشی پالیسی کا تسلسل اور بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف ریاستی جبر اور درندگی کی انتہا ہے۔ یہ المناک واقعہ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر و بربریت کی ایک ایسی کڑی ہے، جس نے واضح کر دیا ہے کہ ریاست سیاسی آوازوں کو سننے کے بجائے بندوق کے زور پر خاموش کرانے کی پالیسی میں تیزی لارہی ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان کو ایک مقتل گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیاں، ان پر جھوٹے مقدمات، ہراسانی، اور ماورائے عدالت قتل معمول بن چکے ہیں۔ صرف ایک ہفتے کے دوران چار افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا گیا، تین افراد جبری گمشدگی کے بعد مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں لائے گئے، اور اب زبیر بلوچ کے ماورائے عدالت قتل کو چھپانے کے لئے جعلی مقابلے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام واقعات اس منظم پالیسی کا حصہ ہیں جس کے ذریعے اختلافِ رائے کو کچلا جا رہا ہے اور بلوچ عوام کو خوف کے ماحول میں زندہ رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ زبیر بلوچ ایک سیاسی کارکن، پی ایس او (پجار) کے سابق چیئرمین، ایک وکیل اور ایک توانا سیاسی آواز تھے۔ وہ ہمیشہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں، اور عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ڈٹے رہے۔ ان کا قتل محض ایک فرد کی جان لینا نہیں بلکہ بلوچستان کے سیاسی کارکنان کے خلاف ریاستی جبر میں شدت کا مظہر ہے۔

مزید کہاکہ چیئرمین زبیر بلوچ کا قتل ایک فرد کا نقصان نہیں بلکہ پورے بلوچ قوم کا نقصان ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے جرائم اور مظالم کبھی بھی عوامی آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوئے اور نہ ہی آئندہ ہوں گے۔ ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے اوپر ہونے والے ریاستی جبر پر کسی بھی صورت خاموشی اختیار نہ کریں۔ جبر اور مظالم کے سامنے خاموشی اجتماعی موت کے مترادف ہے اور ریاستی خواہش بھی یہی ہے کہ بلوچ عوام اس جبر پر خاموش رہے۔ یہ بات علمی اور عملی بنیادوں پر ثابت ہے کہ جب عوام ریاستی جبر کے خلاف خاموش رہتی ہے تو ریاست اس دباؤ کو مزید بڑھاتی ہے۔ ریاستی جبر کا خاتمہ عوامی مزاحمت سے ہی ممکن ہے۔