چھ ماہ سے زائد قید گلزادی بلوچ کو مفرور قرار دینا انصاف اور قانون دونوں کی تضہیک ہے۔بلوچ یکجہتی کمیٹی

45

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ تنظیمی رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ، شاجی بلوچ، گلزادی بلوچ، بیبو بلوچ اور عمران بلوچ گزشتہ چھ ماہ سے ریاستی حراست میں قید ہیں۔ انہیں ابتدائی طور پر تین ماہ کے لیے 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم اس مدت کے خاتمے کے باوجود ان کی غیر قانونی حراست مختلف ہتھکنڈوں اور بہانوں کے ذریعے مسلسل بڑھائی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ اب تک ان رہنماؤں کو کم از کم چھ مرتبہ پولیس ریمانڈ پر بھیجا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود حالیہ دنوں میں مستونگ کی ایک ایف آئی آر میں نامزد گلزادی بلوچ کو “روپوش” اور “مفرور” قرار دے کر ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔ حالانکہ گلزادی بلوچ سمیت تمام رہنما گزشتہ چھ مہینے سے ریاستی قید میں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہ عمل نہ صرف بلوچستان میں جمہوری سیاسی جدوجہد کو طاقت و تشدد کے زور پر ختم کرنے کی ریاستی پالیسی میں شدت لانے کا مظہر ہے بلکہ ریاستی اداروں کے اپنے قانونی اور عدالتی ڈھانچے کے ساتھ مذاق بھی ہے۔ کسی شخص کو حراست میں رکھنے کے باوجود اسے “مفرور” قرار دینا انصاف اور قانون دونوں کی تضحیک ہے۔ ایسے اقدامات عدالتی عمل کی ساکھ کو داغدار کرتے ہیں اور اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ آیا عدالتیں واقعی آزاد اور خودمختار حیثیت میں کام کر رہی ہیں یا محض ایک رسمی ادارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔

ترجمان نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی گرفتاری اور مسلسل قید سے نہ تو بلوچستان کے زمینی حقائق کو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی ریاستی جبر کے خلاف اس عوامی تحریک کو روکا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس، ایسے غیر قانونی اور جابرانہ اقدامات سے عوامی تحریک میں شدت پیدا ہوتی ہے۔

مزید کہاکہ یہ صورتحال ریاستی رویے کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح قانون کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مظلوم اقوام کے سیاسی تحریک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ریاست کے اپنے قوانین اور آئین کی کھلی توہین بھی ہے۔ اگر عدالتیں اور ریاستی ادارے اس طرز عمل کو جاری رکھتے ہیں تو اس کے اثرات دور رس اور خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

بیان کے آخر میں کہا ہے کہ ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست فوری طور پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام رہنماؤں کو رہا کرے، جھوٹے مقدمات واپس لیے جائیں اور اس غیر آئینی و غیر قانونی طرز عمل کو ختم کیا جائے۔ سیاسی اختلاف کو دبانے اور آوازوں کو خاموش کرنے کی پالیسی نہ صرف ناکام ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔