پاکستان میں جو بلوچوں کی بات کرتا ہے اسے غدار قرار دیا جاتا ہے، بلوچ لواحقین کا ایمان مزاری سے اظہارِ یکجہتی

93

اسلام آباد میں بلوچ لواحقین کا دھرنا اپنے 69ویں روز میں داخل ہوگیا ہے، اس موقع پر انہوں نے ایڈووکیٹ ایمان مزاری کے خلاف جاری ریاستی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے ان سے اظہارِ یکجہتی کی۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ریاستی اداروں اور فورسز کے خلاف ٹویٹس کے الزام میں ایڈووکیٹ ایمان مزاری اور ان کے شوہر ایڈووکیٹ ہادی علی چٹھہ کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ دونوں کو 24 ستمبر تک گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔

ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ کے خلاف این سی سی آئی اے نے مقدمہ درج کر رکھا ہے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملات کی ذمہ داری سیکیورٹی فورسز پر ڈالی۔

ایمان مزاری کے خلاف جاری ریاستی کارروائیوں پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار رہنماء ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ بلوچ نے اپنے سوشل میڈیا بیان میں کہا کہ ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہے کہ ایک بہادر اور اصولی انسانی حقوق کی وکیل ایمان مزاری کے خلاف ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔

نادیہ بلوچ نے کہا کہ ایمان مزاری کا واحد “جرم” یہ ہے کہ انہوں نے سچ بولا بلوچ حقوق کے لیے آواز اٹھائی اسلام آباد کے کیمپ میں ہمارے ساتھ کھڑی رہیں جبری گمشدگان کے لواحقین کے لیے آواز بلند کی اور پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کی بات کی۔

بلوچ لواحقین نے کہا کہ اس ملک میں جو کوئی بھی بلوچ حقوق، اقلیتوں کے حقوق یا آئین و قانون کی حکمرانی کی بات کرتا ہے اسے غدار قرار دے دیا جاتا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں پاکستان کی طاقتور قوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے کہ وہ ایماندار اور بہادر لوگوں کو غدار قرار دیتی آئی ہیں، آج اسی منطق کے تحت ملک کی آدھی آبادی کو چند طاقتور افراد کی نظر میں غدار کہا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک بے قانون سرزمین بن چکا ہے جہاں قانون کو پامال کرنے والوں کو عزت انعام اور شہرت دی جاتی ہے، جبکہ قانون کا دفاع کرنے والوں کو خاموش کرایا جاتا ہے نشانہ بنایا جاتا ہے اور مجرم بنا دیا جاتا ہے۔

اسلام آباد دھرنے میں شریک بلوچ لواحقین نے کہا کہ ہم ایمان مزاری کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ہم خاموش نہیں رہیں گے ہم عالمی برادری اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان مزاری اور دیگر پُرامن انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ روکنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔

بلوچ لواحقین نے کہا کہ ہمارا احتجاج 69 دن سے جاری ہے، اور یہاں موجود لاپتہ افراد کی ماؤں، بیٹیوں، بچوں اور بزرگوں نے سخت موسم، تیز بارش، چلچلاتی دھوپ اور اقتدار میں رہنے والوں کی بے حسی کو برداشت کیا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا اس تمام دورانیہ میں نہ حکومت اور نہ ہی مین اسٹریم میڈیا نے انصاف کے لیے ان کی فریاد سننے کی ہمت دکھائی ہے اس کے باوجود خاندان اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔