پاکستانی فوج بلاتفریق شہریوں کو جبری لاپتہ کر رہی ہے – بی این ایم کا نیدر لینڈز میں احتجاج

28

30 اگست کو جبری گمشدگیوں کے خلاف عالمی دن کے موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ نے نیدرلینڈز کے شہر اوترخت میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں پشتون تحفظ موومنٹ ، جئے سندھ فریڈم موومنٹ اور انسانی حقوق کے کارکنان نے بھی شرکت کی اور اظہار یکجہتی کیا۔ جن کے ہاتھوں میں بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے تصاویر ، بینرز اور پلے کارڈز تھے۔

مظاہرین میں سے بی این ایم نیدرلینڈ چیپٹر کے صدر مھیم عبدالرحیم، ڈاکٹر لطیف بلوچ، اقبال بلوچ، منیر بلوچ، کیا کریم بلوچ، جئے سندھ فریڈم موومنٹ کے کارکن عبد الستار اور انسانی حقوق کے کارکن زر خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگیاں ایک منظم ریاستی پالیسی کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جس کا نشانہ بلوچ، پشتون، سندھی اور دیگر محکوم اقوام کے ہزاروں لوگ بن چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں کوئی بھی قوم محفوظ نہیں۔ سیاسی کارکنوں، طلباء، وکلاء، اساتذہ، صحافیوں، ادیبوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے اغواء کر کے جبری لاپتہ کیا جاتا ہے، اور ان کے اہل خانہ کو برسوں تک ان کے بارے میں کوئی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔

مقررین نے کہا کہ جبری گمشدگیاں صرف ایک قانونی یا سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک گہرا انسانی المیہ ہیں۔ ان مظالم کے نتیجے میں نہ صرف افراد بلکہ ان کے خاندان، برادری اور قوم شدید ذہنی، جذباتی اور سماجی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔

’’ اگر کوئی شخص آزادی، انصاف یا قومی حقوق کی بات کرتا ہے، تو اس کی سزا جبری لاپتہ ہونا بن چکی ہے۔ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری فوجی کارروائیوں کے دوران ہزاروں افراد جبری لاپتہ کیے جا چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد طلباء، انسانی حقوق کے کارکنان، اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلاء، دانشوروں اور نوجوانوں کی ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد کو ماورائے عدالت قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا، جبکہ متعدد کی زندہ یا مردہ حیثیت آج تک نامعلوم ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگی صرف ایک شخص کی گمشدگی نہیں، بلکہ ایک پورے خاندان کی روزمرہ اذیت اور بربادی کا نام ہے۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی تلاش میں برسوں در بدر پھرتی ہے، ایک بہن ہر دروازے پر انصاف کی دہائی دیتی ہے، اور ایک باپ بے بسی کے عالم میں خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ یہ وہ زخم ہیں جنھیں صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو خود اس کرب سے گزرا ہو۔

بلوچ، پشتون اور سندھی خطوں میں جاری جبری گمشدگیاں بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں، اور اس پر عالمی برادری کی خاموشی قابلِ مذمت ہے۔ مقررین نے اقوام متحدہ، یورپی یونین، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ بلوچستان میں جاری اس ریاستی جبر پر سنجیدہ نوٹس لیں اور ذمہ دار اداروں اور افراد کو عالمی سطح پر جواب دہ بنایا جائے۔