کوئٹہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے آج کی عدالتی پیشی کے دوران بلوچ خاتون ماہ جبین بلوچ کی جبری گمشدگی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی جبر اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں خواتین کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یہاں عدالتیں ہوں یا پارلیمنٹ، کوئی بھی بااختیار نہیں فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں اور ادارے صرف دکھاوے کے لیے موجود ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیاں صرف ایک کیس یا ایک فرد تک محدود نہیں ہیں ایک طالب علم جو معذوری کا شکار ہے اسے تقریباً تین ماہ سے جبری حراست میں رکھا گیا ہے لیکن عدالتیں حتیٰ کہ اسے پیش کرنے کا اختیار بھی استعمال نہیں کر رہیں۔
انہوں نے کہا اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں اصل میں عسکری حکومت قائم ہے، نہ کوئی عوامی حکومت موجود ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے سپریم کورٹ اور دیگر عدلیہ بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق بلوچستان سے خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات طویل ہیں پہلے بلوچستان کے دیہاتوں سے خواتین کو جبری لاپتہ کیا جاتا تھا اب شہروں سے طالبات کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں، جو ان کا پیدائشی اور آئینی حق ہے ہم ان حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھیں گے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور باشعور طبقات سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ جبری گمشدگی جیسے سنگین جرم کے خلاف آواز بلند کریں اور ماہ جبین سمیت بلوچستان میں جبری گمشدگی کے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔