لسبیلہ یونیورسٹی کے طلباء جابرانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج – بشام بلوچ

39

لسبیلہ یونیورسٹی کے طلباء جابرانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج

تحریر: بشام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ویسے یہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں موجود طلباء کے لیے شاید کوئی نئی بات نہ ہو، کیونکہ بلوچستان میں طلباء کلاس رومز سے زیادہ سڑکوں، مظاہروں اور احتجاجی کیمپوں میں وقت گزارتے ہیں۔ حالانکہ ایک عالمی سچائی ہے کہ تعلیمی ادارے علم اور شعور کے گہوارے ہوتے ہیں جہاں طلباء ایک خوشگوار تعلیمی ماحول میں اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ یہی وہ ماحول ہوتا ہے جو طلباء کی ذہنی نشوونما اور تخلیق کا سبب بنتا ہے۔

مگر جب ہم بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو اسی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو حقیقت اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ یہاں نہ صرف طلباء کو آئے دن ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کا سامنا ہے بلکہ ایک خوشگوار تعلیمی ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے بنیادی سہولیات تک بھی میسر نہیں۔ جیسے اساتذہ اور اسکالرشپس کی کمی، اسٹڈی ٹرپس کی بندش، اور متعدد ہاسٹل کے مسائل بھی طلباء کو درپیش ہیں۔

تعلیمی اداروں میں طلباء کلاسز کے علاوہ بہت سے پروگرامز اور تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے تعلیمی ادارے، خاص طور پر لسبیلہ یونیورسٹی، طلباء کی ان سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک اور قابلِ مذمت عمل ہے۔ یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جہاں طلباء اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، اور یہی سرگرمیاں ان کے تخلیقی عمل کو جِلا بخشتی ہیں، جو کہ ایک باشعور اور قابل طالبعلم کے لیے ضروری ہیں۔ مگر افسوس کہ یہاں یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ کم اور ایک قیدخانہ زیادہ لگتی ہے، جہاں وائس چانسلر بطور “جیلر” جبکہ باقی انتظامیہ بطور “کانسٹیبل” کردار ادا کر رہی ہے۔ جن کا مقصد طلباء کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا اور انہیں خوف و دباؤ کے سائے میں قید کرنا ہے۔

اگر ہم باریک بینی سے لسبیلہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے رویے کو دیکھیں تو ہمیں جبر اور ظلم کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ آئے روز وائس چانسلر مالک ترین طلباء پر طرح طرح کے جبر و ظلم کی مشق کرتا ہے۔ اگر کوئی طالبعلم مالک ترین کی پالیسیوں اور اس کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کرے تو اسے مختلف پابندیوں، ایف آئی آرز اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ہر کوئی خوف میں مبتلا ہے۔

اس سب کے باوجود چند باہمت، نڈر اور بہادر طلباء انتہائی مضبوطی کے ساتھ مالک ترین کے سامنے بے جھجک کھڑے ہیں۔ یہی وہ طلباء ہیں جو مالک ترین کی جابرانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ انہی کی وجہ سے آج ہاسٹلز میں طلباء سکون سے رہتے ہیں، انہی کی بدولت ہمیں بار بار ہاسٹل یا جامعہ کے گیٹوں پر اپنی انٹری نہیں کرانی پڑتی۔ طلباء کی جانب سے لگایا گیا احتجاجی کیمپ مالک ترین کی جابرانہ پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔