فلسفہ گڈیکو سُم کا پیروکار جند ندر رشید بزدار – جیہنر بزدار

111

فلسفہ گڈی کوسم کا پیروکار جند ندر رشید بزدار عرف میرل بلوچ

تحریر: جیہنر بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

آہ سنگت، یقین نہیں ہو رہا کہ تم نے خود کو سرزمین کے باہوٹ کر دیا ہے اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ہو۔ تمہارے ساتھ گزارے حسین لمحے جیسے ذہن میں نقش ہو گئے ہوں، دل میں خیالات کا ابھار ہے، وسوسے ہیں، یادیں ہیں، آنکھوں میں بار بار وہ مقام گردش کر رہے ہیں جہاں کبھی تمہارے ساتھ محفل نصیب ہوئی۔ نہ جانے جو لکھ رہا ہوں تم جیسی عظیم شخصیت پر، آیا کہ تمہاری شخصیت کے ساتھ انصاف کر پاؤں گا؟ ہرگز نہیں کر پاؤں گا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ تحریر کا آغاز کہاں سے کروں، کن الفاظ کا چناؤ کروں کیونکہ میں آج ایک ایسی عظیم شخصیت پر لکھ رہا ہوں جس نے اپنی قربانی سے نئی تاریخ رقم کی ہے۔

وہ کوہ سلیمان کا گواڑخ، وہ نرمزار، وہ وطن کا حقیقی محافظ، وہ وطن کی گود میں پلا بڑا، وہ اپنے وطن کے مرگ و مڑدم سے انتہا درجے کا مہر رکھتا تھا، وہ ایک مکمل نظریہ تھا، وہ عشق وطن میں گرفتار تھا، اس کی زبان پر ورد وطن تھا، وہ شہیدوں کے تذکرے کرتا، وہ شہیدوں کے گیت سنتا، وہ جو آج خود ایک داستان بن چکا ہے، وہ تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ خود تاریخ بن چکا ہے۔

شہید رشید بزدار کا تعلق کوہ سلیمان کی عظیم دھرتی سے ہے، جہاں جب بھی دشمن نے نظر بد کے ارادے سے پیش قدمی کی، ناکام رہا۔ شہید کا تعلق بزدار قبیلے سے تھا، یہ وہی سرزمین ہے جہاں انگریزوں نے اپنی پالیسیاں لڑائی اور ہمیشہ مزاحمت کا سامنا کیا۔ انگریز اس علاقے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا۔ انگریز کے جانے کے بعد اس علاقے کو ایک بار پھر قابض نے ارادہ کیا کہ کسی طرح کوہ سلیمان کی عظیم دھرتی کو چھوٹے پراجیکٹ کے ذریعے سے قبضہ کر لے۔ جب ایوبی فوج یہاں قبضہ جمانے آئی تو یہاں کے لوگوں نے اپنا سر جھکانے کی بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ جب ایوبی سرکار کو معلوم ہوا کہ یہاں تو لوگ بغاوت پر اتر آئے ہیں، ایوبی سرکار نے حکم کے تحت فوج کو اس علاقے کا بندوبست کرنے کا کہا گیا۔ دراصل فوج یہاں کے لوگوں کو کچلنا چاہتی تھی، وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی تھی اور اپنے ناپاک قدم اور ناپاک عزائم کو سرانجام دینا چاہتی تھی، لیکن یہاں کے گوریلوں نے بھی مزاحمت کا اعلان کر دیا۔ کمانڈر صدیق اور ماسٹر وحید بزدار کی قیادت میں کوہ سلیمان کے تمام علاقے میں گوانک واہی یعنی بلند آواز میں پہاڑی چوٹیوں پر جاکر پکارا کہ سرکار کے ساتھ جنگ ہے۔

علاقہ در علاقہ گوریلے گئے اور لوگ ان کے ساتھ جڑتے گئے، وسائل محدود تھے مگر حوصلہ پہاڑوں کی چوٹیوں جیسا بلند تھا۔ سرکار کے ساتھ بمقام تھلا تھوخ 7 دسمبر 1967 کو دو بدو جنگ ہوئی جس میں عظیم گوریلا محمدان، دوست محمد، یار محمد اور رحیمو نے خود کو سرزمین پر قربان کر دیا، جہاں دشمن کو ایسی شکست ہوئی کہ کچھ سالوں تک دشمن نے اس علاقے کا رخ نہ کیا۔

ان شہیدوں کو آج تک اس دھرتی کے باشندوں نے فراموش نہیں کیا۔ آج بھی یہاں کے لوگ انہی کے ورد گاتے ہیں اس جنگ کی کمان جنرل شیروف کے ہاتھ میں تھی۔ جنرل شیروف کو یقین تھا کہ یہ قربانیاں رائیگاں نہ ہوں گی، ضرور یہاں کے لوگ سامراج کے خلاف اٹھیں گے۔ اسی طرح ان شہیدوں کی یاد میں ہر سال دیوان کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے شہید رشید بزدار کے علاقے ڈاڈا موسی کوہ میں بھی انہی شہیدوں کے حوالے سے ایک دیوان رکھا گیا تھا، ایک دیوان میں شہید سنگت ثنا اور ذاکر مجید بلوچ شامل تھے۔ سنگت ثنا نے اس دیوان میں کہا کہ ہم کوہ سلیمان کی دھرتی پر اپنا ایک پیغام، ایک درد لے کر آئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج سنگت ثنا بلوچ کی روح کو ٹھنڈک محسوس ہو گی، جب فرشتے انہیں بتائے ہوں گے کہ تم جو پیغام لائے تھے اس دھرتی پر، وہ شہید فیض بزدار اور شہید رشید بزدار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

سنگت ثنا نے اسی دیوان میں کہا تھا کہ بلوچ کی ماں آج بھی بانجھ نہیں آئی ہے، وہ آج بھی انہی دلیر بیٹوں کو جنم دے رہی ہے جو وطن پر مر مٹنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ آخر میں سنگت نے کہا تھا مجھے یقین ہے ایک دن اسی سرزمین سے جنگی کمانڈر جنم لیں گے۔ جب حئی بلوچ (مرحوم) ڈیرہ جات آئے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اس سرزمین سے شہیدوں کے خون کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ یہ وہی دور تھا جب اس سرزمین کے لوگ ایک ہی نعرہ لگایا کرتے تھے “دریائے سندھ تا مکران بلوچستان، بلوچستان”، یعنی لوگ سرکار کی جانب سے زبردستی ڈیرہ جات کو پنجاب میں شامل کرنے اور فرضی لکیر سے سرزمین ڈیرہ جات جو کہ قلات اسٹیٹ کا ایک اہم حصہ تھا کو بلوچستان سے جدا کر دیا، جس پر یہاں کے لوگ اپنے غم و غصے کا اظہار کیا کرتے تھے اور آج بھی یہاں کے باشندے خود کو بلوچستان کا حصہ ہی سمجھتے ہیں، اور نہ ہی بلوچستان آیا کہ مشرقی ہو یا مغربی، جو کہ ہمارے لیے صرف ایک بلوچستان ہے، بلوچوں کا وطن ہے، ہمارا خون ایک ہے، مغربی، مشرقی، ایرانی، افغانی، یا پنجاب یا سندھ میں ہمیں کوئی زبردستی تقسیم نہ کر پایا ہے، نہ ہی کر سکیں گے۔ ان فرضی لکیروں کو ایک دن خاک میں ملنا ہے، ان لکیروں کو ضرور ایک دن مٹ جانا ہے۔

کوئی بھی کام ہو عمل کیے بغیر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن ہے، ایک دن سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ دشمن کے ساتھ بمقام ولی تنگی شال میں جھڑپ کے دوران ایک سنگت جس کا تعلق کوہ سلیمان سے ہے، شہید ہوا ہے۔ دل لرز اٹھا کہ کہیں یہ ہمارا یار تو نہیں۔ پھر جب عکس دیکھا تو حیران رہ گیا کہ شہید سنگت کا نام فیض جان بزدار ہے، جن کا تعلق برگ پشت کوہ سلیمان سے تھا، جنہوں نے شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کیا۔ پھر مجھے یقین ہوا کہ ہماری سرزمین کوہ سلیمان کے گمنام سپاہی قومی جہد میں شامل ہیں۔ پھر ایک دن معلوم ہوا کہ مکران کے کچھ سنگت کوہ جاندران بارکھان کوہ سلیمان میں شہید ہوئے، جو کہ چار سنگت تھے، امر ہوئے ہیں۔ اب تو فرضی لکیروں کو قومی جہد نے حقیقت میں خاک میں ملا کر رکھ دیا، دشمن بھی حیران ہے کہ کس جانب سے بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کروں۔

رشید جان ایک حسین لڑکا تھا، اپنا وقت زیادہ تر کتابوں کے ساتھ گزارتا تھا۔ اکثر قادر مری کی کتاب “مسلح جدوجہد” یا بابا کے انٹرویوز کے حوالے دیتا۔ مجھے بھی انہوں نے کہا کہ یہ کتاب ضرور پڑھنا۔ پھر اسی طرح بشیر زیب کا آرٹیکل “آزادی کی راہ میں درپیش مسائل” ہو یا برزکوہی کے آرٹیکلز ہوں، اکثر خود پڑھتا اور دوستوں کو بھی کہتا تھا کہ بغیر پڑھے ہم صرف جہد میں شامل تو ہو سکتے ہیں مگر جب تک ذہنی حوالے سے، شعوری حوالے سے جہد میں شامل نہ ہوں تب تک بس ایک کھوکلا ذہن و جسم لیے جہد میں لٹکتے رہیں گے، ذہن کا مسلح ہونا نہایت ضروری ہے۔ یقیناً مسلح جہد کا راستہ بھی رشید جان نے انہی کتابوں سے تراشا ہوگا۔ رشید جان ہمیشہ سے استاد اسلم کی راہ پر چلنے کی خواہش رکھتا تھا، وہ شہید درویش مری اور ریحان جان کے کاروان کا مسافر تھا۔ صرف بندوق اٹھا کر جہد میں شامل ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن جس کو کتابوں نے بندوق کا راستہ دکھایا ہو تو اس بندوق سے نکلا ہر ایک تیر نظریہ بنتا ہے۔ اکثر رشید جان کہا کرتے تھے کہ بندوق اٹھانا، جہد میں شامل ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ جہد میں اپنے پاؤں جمائے رکھنا بڑا کٹھن ہے۔ وہی لوگ جہد سے جڑے رہتے ہیں جو شعوری حوالے سے جہد میں شامل ہوں، نہ کہ کبھی جذبات میں آکر، اور نہ کبھی مجبوری کے تحت جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ جذباتی کے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، مجبور انسان پھر نہ وہاں کا رہتا ہے نہ یہاں کا۔

نڑ سر سنتا شہید صدو مری، شہید بالاچ مری کی داستان سنتا، کبھی میر احمد کی پرمہر آواز میں “سدخئی وطن کن”، یا تو “بشمبو یاراک وطن آ جنگ اے” جیسے انقلابی گیت سنتا، تو کبھی نیٹ فلکس کی سیریز دیکھتا۔ وہ لڑکا کہاں معلوم تھا کہ کبھی قوم محاذ میں شامل ہو کر ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا۔ اپنا زیادہ تر وقت تنہائی میں گزارتا تھا۔ اکثر اوقات رشید جان کوہ سلیمان کی وادیوں میں گزارتا تھا، عشق وطن میں مگن رہتا۔ کبھی کسی محفل میں سیاسی گپ شپ ہوتی تو مختلف دوست کبھی فلاں دوست غلط ہے تو کبھی فلاں کمزوری ہے جیسے بہانے سے راہ فرار اختیار کرتے۔ مگر رشید جان اکثر کہا کرتے تھے کہ تاریخ تم سے یہ سوال کبھی نہ پوچھے گی کہ کون کیا کر رہا تھا؛ تمہیں اپنا جواب دہ ہونا ہوگا کہ جب دشمن تمہاری سرزمین پر قبضہ کرنے آیا، جب تمہارے سفید ریش لوگوں کو بے عزت کرتا، بزرگوں بچوں کو لاپتہ یا ماورائے عدالت قتل کر رہا تھا، تو تب تم نے کیا کردار ادا کیا، تم کیا کر رہے تھے، چپ رہے تماشہ دیکھا اور مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیا؟ اس طریقہ سے شاید ہم خود کو وقتی تسلی دے سکیں مگر تاریخ بڑی ظالم ہے، وہ ہمیں کبھی معاف نہ کرے گی۔ جب بھی جنگ یا کسی ایسے موضوع پر بحث ہوتی تو رشید جان یہی کہتا کہ “اڑے منی وثہ جنگ نوی من لغور مڑ کجا جنگ کت کنہ” یعنی جنگ میری قوت و استطاعت میں نہیں ہے، میں بزدل ہوں۔ مگر آج وہی شخص جنگی محاذ پر امر ہو گیا اور ہم جو ٹھہرے صرف گفتار کے شیر، آج جنگ تو کیا، جنگ پر بحث کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔

رشید جان نے جب خود کو سرفیس پالیٹکس سے دور کیا تو طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی تھیں کہ یہ تو فلاں سے متاثر ہے، یہ تنظیمی ڈسپلن کو نہیں مانتا، یہ اسٹرکچر کو نہیں مانتا، بہت سے دوستوں کو اس حد تک بھی کہا گیا کہ جو لوگ ان کی محفل میں بیٹھتے ہیں وہ تنظیم مخالف بیانیہ کو فروغ دیتے ہیں؛ لہٰذا رشید جان کے ساتھ محفل سے اجتناب کریں۔ جبکہ دوسری طرف رشید جو حقیقت سے واقف تھا، کبھی کسی کو نہ کہتا کہ فلاں کام کرو، فلاں کام سے دور رہو۔ تنقید کا جواب تنقید کی بجائے اپنی مسکراہٹ سے دیتا، کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتا۔ سادہ مزاج بلکہ راست گو انسان تھا، مسکراہٹ چہرے پر ایسی تھی کہ ہر شخص مل کر خوش ہوتا، ہر دوست کے ساتھ مزاق کرتے، ہنسی بکھیرتے۔ اپنے علاقے کے شوانگ کے ساتھ کبھی مال چرانے چلے جاتے، تو کبھی اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ گندم کی کٹائی ہو، خوشی ہو یا غم رشید جان ہر جگہ موجود ہوتا، کیونکہ رشید دھرتی کا وارث تھا، اسے اپنے لوگوں سے انتہائی درجے کا عشق تھا۔

کہتے ہیں جب غلام کو اپنی غلامی کا احساس ہو جائے تب وہ حقیقی زندگی گزارنے کی سوچتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ آخر میں کیوں غلامی میں زندگی بسر کروں، مجھے غلام کیوں رکھا جا رہا ہے، غلامی خدا کی طرف سے عنایت کردہ ہے یا زمینی خداؤں نے غلام بنایا ہے؟ آقا کی غلامی تو پھر بھی کچھ حد تک سمجھ میں آتی ہے لیکن بلوچ کو جس نے غلام رکھا ہوا ہے، اُسے آقا کہنا بھی شاید حقیقی آقاؤں کی توہین ہے، جو خود غلام ہے کبھی امریکہ کا غلام، کبھی چائنہ کا۔ بلوچ کو تو پھر غلام کا غلام بنایا گیا ہے۔ یہ سوالات جب جواب بنتے ہیں تو غلام غلامی پر تھوکتا ہے اور اینٹ کا جواب اینٹ، توپک کا توپک سے دیتا ہے۔ رشید جان نجانے تم نے اس راہ میں کتنا پرتکلف سفر طے کیا ہو گا، یقیناً اگر تم کچھ دن مزید زندہ رہتے تو دشمن کو ایسا سبق سکھا تے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی تمہاری بہادری کے قصے سناتا۔ لیکن یہ جنگ ہے، بے رحم ہے، کسی لمحے پر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم جو آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں کہاں جان سکتے ہیں کہ تمہارا سفر کتنا پرتکلف رہا ہے۔

جب تنظیمی بیان سنا کہ نوشکی کے شہدا میں شہید رشید جان شامل ہیں جو کہ وطن پر فدا ہوئے، ایک لمحہ کے لیے جسم لرز گیا، جیسے سانس رک گئی ہو، سر چکرا گیا، پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ بیان کو بار بار پڑھتا رہا، وہ رات بہت گراں گزری، لیکن ایک بات ضرور تھی افسردہ نہیں ہوا، افسوس اس وقت لازم ہوتا کہ تم اچانک کسی حادثے میں مارے جاتے؛ مگر جب سنا کہ تم نے دو دن تک دشمن کو ہوش میں نہ آنے دیا، اپنے دوستوں کے ساتھ دشمن کو دو دن تک بھوکے پیاسے اپنے تیروں کے ساتھ روک رکھا، اس وقت تک مسلسل لڑتے رہے جب تک کہ آخری تیر آن پہنچا۔

دشمن تم سے ہم کلام ہوا کہ سرینڈر ہو جاؤ، تمہیں نہیں ماریں گے اور تم کہتے، سرینڈر وہ بھی تم جیسے بزدل کے آگے؟ اور آخری تیر اپنے جسم میں اتار دیا۔ ہائے وہ کیا لمحہ ہوگا جب دشمن سامنے ہو، تیر ختم ہو جائے، ایک طرف سرزمین کا باہوٹ بننے کی خوشی، تو دوسری طرف اس بات کا غم کہ کاش کچھ تیر اور ہوتے، دشمن کو مزید روکے رکھتا۔

شہید فدائی رشید بزدار نے آخری تیر فلسفہِ شہید امیر ملک اختیار کرتے ہوئے، خود کو دشمن کے ہاتھوں گرفتار کروانے کی بجائے آخری تیر، ہائے وہ تیر نہ جانے کب سے شہید رشید نے اپنے دل سے جوڑے رکھا ہوگا، خود کو اسی کے حوالے کر دیا اور ہنستے مسکراتے، بے خوف چہرے کے ساتھ خود کو سرزمین پر ندر کر دیا۔
“Those who choose land over life, Story of last bullet will continue.”
وطن سے عشق، عشق کی انتہا اور پھر آخری گولی فلسفہ۔ آخری گولی فلسفہ آج سے آٹھ سال قبل بلوچ تحریک کے محافظ پہاڑی دامن شور پارود میں جنم لیتا ہے، جب فکرِ مجید کا ایک درویش، شہید امیرالملک، دشمن کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کرتی ہے۔

کہا جاتا ہے آزادی کسی مہربان مہمان کی طرح خاموشی سے نہیں آتی بلکہ ایک ایسا طوفان بن کر ابھرتی ہے جو اپنے ساتھ درد، جدائی اور قربانی کی صدائیں لاتی ہے۔ یہ فقط عنایت نہیں کرتی، یہ قیمت مانگتی ہے۔

وہ قیمت جو اپنے عزیزوں کو رخصت ہوتا دیکھنے میں ہے، اُن کا چلے جانا ترک نہیں، بلکہ آزادی کے مقدس سفر کے لیے پیش کی گئی ناگزیر قربانی ہوتی ہے۔ ان کے لہو کا ہر قطرہ، آزادی کے راستے پر ایک مقدس چراغ کی مانند ہوتا ہے، ایسا نشان جو زمین کو مقصد کا رنگ بخش دیتا ہے۔

وہ خلا جو اُن کی جدائی سے پیدا ہوتا ہے، ہمیں خالی نہیں کرتا بلکہ ہمارے اندر ایک نئی، پختگی، ایک زندہ شعور بیدار کرتا ہے۔ اُن کی چھوڑی ہوئی خوبصورت یادیں صرف ماضی کی تصویر نہیں ہوتیں، بلکہ وہ آگ ہوتی ہیں جو ہمارے قدموں میں سمت اور دل میں حوصلہ بھر دیتی ہیں۔

حقیقی آزادی وہ ہے جب ہم اُن کی قربانیوں کو اپنی آواز، اپنے قلم اور اپنے عمل میں ڈھال لیں۔ ان کی یادیں صرف دکھ نہیں رہتی بلکہ بغاوت کا استعارہ بن جاتی ہیں۔ رشید جان تمہاری نشانی، تمہارا دکھایا ہوا راستہ، تمہاری بندوق ہیں، ضرور دھرتی کے وارث اٹھائیں گے۔ یقیناً تم جب خود کو ندر کر رہے ہو گے، تمہیں اس بات پر پختہ یقین ہوگا کہ زمین کے بیٹے میری بندوق تھامیں گے۔ تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، ایک نا ایک دن اپنی منزل کو لازم پا جاتی ہیں، جند ندر تحریکوں کو پختہ اور منزل کی طرف گام کو تیز کر جاتے ہیں، سرزمین کا قرض اپنے خون سے اتار دیے جاتے ہیں۔

بلوچ کا دشمن غیر مہذب، اندھا، بہرا، گونگا اور بے لگام ہے، پیسے پر پلتا ہے، پیسے پر بھونکتا ہے۔ جنگی اصولوں سے بالکل ناواقف، جب جنگی میدان میں اترتا ہے، ناکام لوٹتا ہے۔ مگر اوقات ضرور دکھاتا ہے، کبھی اپنی پتلون چھوڑ جاتا ہے تو کبھی شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ کچھ ایسا غیر مہذبی یا اپنا سب اسٹینڈرڈ ہونا ضرور دکھا جاتا ہے۔ مگر دشمن کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس قوم نے آپ سے ایک ایک خون کے قطرے تو کیا، ہر پتھر کا حساب لینا ہے اور ضرور لے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔