عالمی سطح پر کامیابی و بلوچ قومی فوج بی ایل اے – گزین بلوچ

222

عالمی سطح پر کامیابی و بلوچ قومی فوج بی ایل اے

تحریر: گزین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حال ہی میں پاکستان اور اس کا قریبی اتحادی چین ایک بار پھر بلوچ قومی تحریک کو بین الاقوامی سطح پر دباؤ میں لانے کی کوششوں میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ اس مہم کا واضح مقصد بلوچ مزاحمتی تنظیموں، خصوصاً بلوچ لبریشن آرمی اور اس کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ کو عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کروانا تھا۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 کمیٹی کے تحت پاکستان اور چین نے ایک مشترکہ قرارداد پیش کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بی ایل اے کو ان شدت پسند تنظیموں کی صف میں شامل کیا جائے جو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، جیسے القاعدہ اور داعش ہیں۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ بلوچ مزاحمتی تحریک نہ صرف ریاستی سالمیت کے خلاف سرگرم ہے بلکہ ان کے مبینہ روابط بین الاقوامی شدت پسند نیٹ ورکس سے بھی ہیں۔ اس قرارداد کا اصل مقصد نہ صرف عالمی برادری کو ایک مخصوص بیانیہ فراہم کرنا تھا بلکہ بلوچستان میں جاری مزاحمت کو محض دہشت گردی کے خانے میں فٹ کرنا بھی تھا، تاکہ ریاستی جبر اور عسکری کارروائیوں کو عالمی حمایت حاصل ہو سکے۔

تاہم یہ کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا۔ ان تینوں مستقل رکن ممالک کی مخالفت اس بات کی عکاس ہے کہ مغربی دنیا بلوچ تحریک کو مکمل طور پر دہشت گردی کے زمرے میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ درحقیقت، بلوچ تحریک کے پس منظر میں موجود سیاسی، تاریخی اور انسانی حقوق کے پہلوؤں کو نظر انداز کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔

بلوچ قومی تحریک کوئی نیا یا وقتی ابھار نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں قیامِ پاکستان کے وقت سے جُڑی ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں قدرتی وسائل کی فراوانی اور سیاسی خودمختاری کی خواہش نے اس تحریک کو وقت کے ساتھ ساتھ مزید قوت بخشی ہے۔ تاہم ریاستی بیانیہ ہمیشہ اس تحریک کو بیرونی سازش یا دہشت گردی سے تعبیر کرتا آیا ہے۔

سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد کو مسترد کیے جانے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری بلوچ مسئلے کو صرف سیکیورٹی کے تناظر میں نہیں دیکھتی۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک انسانی حقوق، سیاسی محرومی اور مقامی عوام کی جائز شکایات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ چین کی بلوچستان میں سرمایہ کاری، خاص طور پر گوادر اور سی پیک منصوبے، بھی اس سفارتی مہم کے پس منظر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چین بلوچ مزاحمت کو اپنی سرمایہ کاری کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے، جبکہ پاکستان اسے داخلی سلامتی کا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بلوچ مزاحمت کی قانونی اور سیاسی حیثیت کو ختم کیا جائے۔

بلوچ تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ریاستی کوششیں ایک پیچیدہ سیاسی مسئلے کو محض سیکیورٹی مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی حکمتِ عملی ہے، جو نہ صرف ناکام ہو رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر سوالات بھی اٹھا رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان اور چین کی مشترکہ قرارداد کی ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ مسئلہ اب صرف بندوق اور سفارتی دباؤ سے حل نہیں ہوگا، بلکہ عالمی دنیا کو بخوبی علم ہے کہ اس کا واحد حل بلوچ قوم کی خودمختاری، باوقار حیثیت اور ایک آزاد وطن ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کو آج صرف ایک عسکری تنظیم کہنا اس کی سیاسی اور قومی اہمیت کو کم کر دینا ہوگا۔ پوری بلوچ قوم بی ایل اے کو ایک دفاعی فوج کے طور پر دیکھتی ہے جو اپنی سرزمین، شناخت اور وسائل کے تحفظ کے لیے صف آرا ہے۔ بلوچ قوم کو بخوبی علم ہے کہ بی ایل اے نہ صرف بلوچ مزاحمت کی علامت ہے بلکہ ایک ریڈ لائن ہے، جسے عبور کرنا بلوچ قوم کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

دنیا بھر کی سفارتی، سیاسی اور عسکری قوتیں اس حقیقت سے بے خبر نہیں۔ عالمی سطح پر اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ محض اندرونی نہیں، بلکہ انسانی حقوق، وسائل کی ملکیت، قومی خودمختاری اور بین الاقوامی سیاسی توازن سے جڑا ہوا ایک حساس معاملہ ہے۔

بلوچ قوم کے لیے بی ایل اے ایک ریڈ لائن بن چکی ہے۔ عالمی دنیا کو بخوبی علم ہے کہ بی ایل اے کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کو بلوچ قوم پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ بلوچ نوجوان، طلبہ، خواتین اور بزرگ، سب کسی نہ کسی صورت میں بی ایل اے کے دفاعی ڈھانچے سے جُڑے ہوئے ہیں یا اس کے بھرپور نظریاتی حامی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں بی ایل اے کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کرتی ہیں اور اسے محض شدت پسند تنظیم کے طور پر دیکھنے سے گریز کرتی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور کئی دیگر ممالک کی جانب سے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار نہ دینا محض ایک خاموشی نہیں بلکہ ایک شعوری حکمتِ عملی ہے۔ یہ ممالک اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ خالصتاً سیکیورٹی کا نہیں بلکہ ایک سیاسی و قومی مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی رپورٹس میں بلوچستان کا ذکر، جبری گمشدگیوں کے خلاف مذمت، اور بلوچستان کی تحریک پر عالمی میڈیا کی توجہ یہ سب اس بات کا اشارہ ہیں کہ بی ایل اے کو عالمی سطح پر ایک “ایجنڈا رکھتی ہوئی قوت” سمجھا جاتا ہے۔ عالمی دنیا بی ایل اے کی موجودگی کو بلوچ قوم کی اعتماد کی لکیر سمجھتی ہے، جسے ختم کرنا ممکن نہیں بلکہ اس کے ساتھ مکالمہ ضروری ہے۔

بی ایل اے کو دہشت گرد کہنا اب صرف ایک سیاسی موقف نہیں بلکہ ایک نفی ہے بلوچ قوم کی مزاحمت، درد، قربانی اور شناخت کی۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں بی ایل اے کو وہ لیبل نہیں دیتیں جو اکثر شدت پسند گروہوں کو دیا جاتا ہے۔

بی ایل اے آج بلوچ عوام کے دل و دماغ میں ایک قومی دفاعی قوت کے طور پر موجود ہے۔ یہ بلوچوں کی وہ سرخ لکیر ہے جسے پار کرنے کا مطلب صرف ایک تنظیم سے نہیں، بلکہ پوری بلوچ قوم سے تصادم ہے۔ دنیا، جو سفارت کاری میں باریکیوں کی ماہر ہے، یہ بات خوب جانتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔