ضلع دُکی اور بدامنی
تحریر: اسد ستوریانی
دی بلوچستان پوسٹ
ضلع دُکی، جو کبھی امن و روزگار کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا، آج بدامنی، دھماکوں، اغواء برائے تاوان اور قتل و غارت کا شکار ہے۔ وہی دُکی جہاں پچھلے ستر برسوں سے لوگ رزق کماتے اور زندگی سکون سے گزارتے تھے، آج خوف اور غیر یقینی صورتحال میں گھِر چکا ہے۔ ایک رات میں 21 مزدوروں کا قتل اس زوال کی بدترین مثال ہے۔
بدامنی کی بڑی وجہ عوام کا بکھراؤ اور بے حسی ہے۔ نہ کوئی سیاسی یا علاقائی یکجہتی ہے، نہ کوئی عوامی تحریک۔ یہی خلا دہشت گردوں، بھتہ خور مافیا اور ریاستی اداروں نے بھر لیا۔ معدنیات کی رویئلٹی جو آئین پاکستان کے تحت 10 فیصد عوام کا حق ہے، اس پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ فرنٹیئر کور نے فی ٹن “سیکیورٹی ٹیکس” کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کرلیے۔ یہ رقم تعلیم، صحت اور ترقی پر لگنی تھی مگر چند پارک اور عمارتوں سے زیادہ عوام کو کچھ نہ ملا۔
اب بھتہ خوروں نے بھی اپنا غنڈہ ٹیکس نافذ کر دیا۔ کبھی کوئلے کی کانوں کو آگ لگائی جاتی ہے، کبھی ٹھیکیداروں کو اغواء کیا جاتا ہے۔ یعنی عوام کے حق پر پہلے ریاستی اداروں نے ڈاکہ ڈالا اور اب دہشت گرد بھی اپنے حصے کے طلبگار بن گئے۔ اس ساری صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام میں نہ شعور ہے، نہ جرات، نہ اتحاد۔ جب کوئی قوم اپنے حق کے لیے کھڑی نہیں ہوتی تو طاقتور قوتیں لازماً اپنی طاقت آزماتی ہیں۔
دُکی کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ عوام کو ان کا آئینی حق دیا جائے۔ جب عوام کو ان کی رویئلٹی ملے گی اور وہ خود فیصلہ کریں گے کہ یہ رقم تعلیم، صحت اور ترقی پر خرچ ہونی ہے تو امن خود بخود بحال ہو جائے گا۔ اگر لڑنے کے لیے کوئی جواز نہیں ہوگا تو لڑائی بھی ختم ہو جائے گی۔
یہ حق کیسے ملے گا؟ صرف اتحاد اور اجتماعی تحریک کے ذریعے۔ دُکی کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہ وہ اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں جو اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان تمام قومیتوں کو ساتھ ملا کر ایک کمیٹی بنائیں جو اس رویئلٹی کو عوامی فلاح پر خرچ کرے اور ریاستی اداروں کو ان کی اصل ذمہ داری یاد دلائے۔ یہ پیغام دیا جائے کہ دُکی کے عوام امن پسند ہیں اور بندوق کے زور پر کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
یاد رہے، اب تک دُکی کے عوام 40 ارب روپے سے زیادہ “سیکیورٹی ٹیکس” دے چکے ہیں لیکن اس کے بدلے میں نہ امن ملا نہ ترقی۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے؟
آخر میں، میں دُکی کے عوام اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اپنے آباؤ اجداد کے بنائے ہوئے امن کے اس گہوارے کو تباہ نہ ہونے دیں۔ اپنے حقوق کو پہچانیں اور انہیں حاصل کرنے کے لیے ڈٹ جائیں۔ یاد رکھیں امن ہمارا حق ہے، رویئلٹی ہمارا حق ہے یہ حق پاکستان کے آئین نے ہمیں دیا ہے۔ ہم کسی بندوق بردار کے سامنے نہیں جھکیں گے، بلکہ اپنے حق کے لیے کھڑے ہوں گے۔ اگر آج نہ اٹھے تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔