شہید کمانڈر سفیان کرد عرف چیئرمین شاشان ایک مخلص اور باعمل ساتھی
تحریر: مزار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جن کی اوصاف بیان کرنے کے لیے الفاظ کے گہرے سمندر بھی بہت چھوٹے نظر آنے لگتے ہیں، جن کے کردار کو قلم بند کرتے ہوئے سنہرے الفاظ کی لڑی بھی نامکمل نظر آتی ہے۔ ایسی شخصیات سے ہی قومی بقا و سلامتی وابستہ ہے جو اپنی دلیرانہ فیصلوں اور عظیم قربانیوں سے تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں، جو باطل کا نام و نشان مٹا کر اسے ذلت آمیز شکست سے دو چار کر دیتے ہیں۔
ان شخصیات میں سے ایک شخصیت شہید کمانڈر سفیان کرد عرف چیئرمین شاشان کی ہے جنہوں نے سرزمینِ بلوچستان کی آزادی کی خاطر اپنی جان نچھاور کی اور آخری دم تک مزاحمت کے عظیم فلسفے پر عمل پیرا رہتے ہوئے دشمن کے ساتھ دو بدو لڑائی میں اسے تگنی کا ناچ نچاتے ہوئے طویل جنگ کے بعد شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے۔
شہید سفیان، زمانہ طالب علمی سے ہی قومی شعور سے لیس ایک ہونہار طالب علم تھے، ان کی سوچ میں غلامی سے نفرت اور آزادی کی جدوجہد میں عملی طور پر حصہ لینا شامل تھی، وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ کردار اور عمل کے بغیر محض باتیں کرنا قومی تحریک اور شہداء بلوچستان کی عظیم قربانیوں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہے، یہی وہ فکر اور نظریہ تھا جس نے شہید سفیان کو مسلح جدوجہد کے اس پرخطر اور کٹھن راستے کا مسافر بنایا جہاں وہ اپنی شہادت سے ایک لازوال و بے نظیر کردار کے ساتھ امر ہوگئے۔
شہید سفیان نے بطور ایک جہدکار و مزاحمت کار اپنی سفر کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا جہاں اس نے ریاست کی بلوچ قوم کے خلاف ظلم و بربریت کو انتہائی قریب سے دیکھا، آئے روز ریاست کا بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنا، پرامن بلوچ احتجاجیوں پر لاٹھی چارج کرنا، ریاستی اداروں کی جانب سے چادر و چار دیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں پر آ کر ظلم و بربریت کرنا، ان سب حالات کا انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بلوچ قوم کی بقا و شناخت کا واحد ضامن بلوچستان کی آزادی ہے اور آزادی کا حصول مسلح جدوجہد سے ہی ممکن ہے، اسی سوچ کے ساتھ شہید سفیان نے چیئرمین شاشان کا روپ دھار کر بلوچ لبریشن آرمی میں شمولیت اختیار کی اور اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔
شہید چیئرمین شاشان، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں شعبہ سیاسیات کے طالب علم تھے، شعبہ سیاسیات سے منسلک رہنے کی وجہ سے وہ علمی شناسائی رکھنے والے نوجوانوں میں سے تھے جو ہر مسئلے کو انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کرتے تھے، وہ اکثر بلوچ قوم کی محرومیوں پر بات کرتے اور لاپتہ بلوچ طلباء کے لیے نکالے گئے پرامن احتجاجوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، ریاست کے ظالمانہ اور سفاکانہ رویے کو دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بلوچ قوم کی تقدیر کا فیصلہ اب صرف اور صرف مسلح جنگ پر ہی منحصر ہے۔
جب شہید سفیان، بلوچ لبریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے منسلک ہوکر پہاڑی محاذ پر آئے تو اپنی محنت، ذہانت، مخلصی اور دیدہ دلیری سے بہت جلد ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئے، تحریکِ آزادی کی دشواریوں کے منجدھار سمندر میں غوطہ زن وطن کے اس سپاہی کے لیے مشکلات کا کوہِ گراں بھی روئی کا معنی رکھتا جسے وہ اپنی محنت، مستقل مزاجی اور مخلصی سے ممکن بناتا، شہید چیئرمین اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے تنظیم میں کمانڈر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دینے لگے۔
شہید چیئرمین سفیان کی عاجزی اور خوش مزاجی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو تھی، جب بھی وہ کسی ساتھی سرمچار سے ہم گفتگو ہوتے تو اس کے الفاظ میں محبت اور خلوص کے عنصر واضح تھے، وہ ساتھیوں کو حوصلہ دیتے اور ہمہ وقت جدید گوریلا جنگی اصولوں کے مطابق تربیت کرنے کی کوشش کرتے۔
شہید چیئرمین سفیان ہم سے جسمانی طور پر جدا تو ہوگئے ہیں مگر فکری و نظریاتی طور پر آج بھی وہ ہمارے ساتھ ان پہاڑوں میں موجود ہیں اور ہماری تربیت کر رہے ہیں، ہمیں حوصلہ دے رہے ہیں کہ شہداء بلوچستان کے اس عظیم مشن کو پایۂ تکمیل تک لے جانا ہے اور دشمن کو کاری ضربیں لگا کر اپنی وطن سے نکالنا ہے۔ آج بھی منجرو کے سنگلاخ پہاڑ شہید چیئرمین کی یاد میں افسردہ ہیں، آج بھی بڈو ڈور کے آبِ رواں میں چیئرمین کا عکس نظر آتا ہے جہاں وہ طویل پیدل سفر کے بعد آرام کے لیے رکتے، آج بھی شور پارود میں درختوں کی لمبی قطاریں شہید چیئرمین کی ہمت، حوصلہ اور بلند عزائم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرکے اسے سلامی پیش کر رہی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔