شاہد سے دُرا بننے کا سفر – واھگ بزدار

101

شاہد سے دُرا بننے کا سفر

تحریر: واھگ بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

بقول ڈاکٹر صبیحہ چاہے وہ بلوچ زبان، بلوچ کلچر، بلوچ تاریخ ہو بلوچ قومی بقا کا سوال جو وہاں میں نے محفوظ پایا ہے اگر میں بیسڈ نہ ہوں تو مجھے کیچ کافی زیادہ عزیز ہے میں خواب دیکھتی ہوں تو ان کو پورا کرنے والے ہزاروں ہیں میں نے شہید غلام محمد کو نہیں دیکھا لیکن میں نے غلام محمد کی جہد کو دیکھا ہے میں شہید بانک کریمہ کو نہیں دیکھا لیکن بانک کریمہ کی جدوجہد کو دیکھا ہے اور ایسے سینکڑوں کرداروں کو نہیں دیکھا لیکن ان کا تعلق کیچ سے ہیں وہ بلوچ جو سپر ہیومن، بلوچی اقدار، ننگ و ناموس کے وارث بنے وہ بلوچ جو اپنی قومی بقا کے سوال کو لیے ہوئے ریاست کی جانب سے دی گئی ڈر کے لکیر کو کراس کر رہی ہیں وہ جو انسان بننے کی جدوجہد کو سرجم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بلوچ مجھے کیچ میں دیکھنے کو ملتے ہیں حقیقت میں کیچ نے بلوچ قومی تحریک کو اپنے لہو سے روشن باب دے کر پورے بلوچستان کے گھر گھر تک بلوچ و بلوچیت کے سوال کو پہنچایا ہے کیچ کی سر زمین بلوچوں کی عزت، ننگ، قومی غیرت اور فکر اور شعور کی پہچان ہے کیچ بلوچ شہداء کی زمین ہے کیچ بلوچ تحریک میں مزاحمت کا چیدہ ہے جس کے فرزندان نے کئی معرکوں میں دشمن کو دھول چٹائی اور سرزمین کی آزادی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے خود کو قربان کر دیا۔

شہید شاہد عرف دُرا کا تعلق بھی کیچ سے تھا وہ اپنے بہن و بھائیوں میں غالباً سب سے بڑے تھے وہ کیچ کے سرزمین میں پلے بڑھے اور وہاں سے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا وہ شہید الیاس نذر کے سٹوڈنٹس رہے بقول شہید دُرا کے میں عمر کے لحاظ سے چھوٹا تھا ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ آزادی کیا ہے پاکستان کیا ہے لیکن جب ہمارے استاد الیاس نذر و کمبر چاکر کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئیں جب ان کے گھر والوں نے لاشیں سنبھالی تو میں ان کے گھر گیا وہاں مجھے ایک عجیب سی کیفیت دیکھنے کو ملی وہاں اپنے جوان سال بیٹے کی لاش پر ماتم کرنے کی بجائے ماں و بہنوں کی طرف سے ان کو نازا جا رہا تھا شہیدوں کی جاں پر ہار چڑھائے جا رہے تھے جب کبھی بہن کے آنسو اپنی بھائی کے یاد میں نم ہونے لگتے تو ماں کی جانب سے کہا جاتا ‘من گوں الیاس قول کُت ء اگاں تو آزادی راہ پہ وتی مات ء سرزمین شہید بیت گڈا من پہ ترا نہ گرایاں بلکہ تہی گہورانی ہمراہ ترا ہالو ہالو نازانا ء’ بقول شہید شاہد کے اسی دن سے میں حیران رہا ہوں کہ ایسی بھی مائیں ہیں جو آزادی جیسے عظیم نعمت لیے اپنے نوجوان بیٹوں کو دلیری و بہادری کا درس دے کر ان کو ذکر و صفات سے نوازتی ہیں۔

شہید شاہد سے میری پہلی ملاقات اسلام آباد میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں گرین کیفے میں ہوئی جین شرٹ میں ملبوس ایک شخص کو میں نے اپنے ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا میں نے سمجھا کہ شاید ایک کرسی جو ہماری میز پر لگی حالیہ پڑی تھی شاید اسی کو لینے آ رہا ہے جب اس نے کرسی پر ہاتھ رکھا تو میں نے کہا سوری یار یہ کرسی پہلے سے ہی بُک ہے تو ہنسنے لگا اور دوست سے بلوچی میں ہال اہوال کرنے لگا وہاں سے دوست نے شہید کا تعارف کروایا کہ اس کا نام شاہد ابراہیم ہے ان کا تعلق کیچ سے ہے جو یہاں کمپیوٹر سائنس کی ڈگری کر رہے ہیں وہ اُسی وقت سے گھل ملنے لگے تھے درویشی نما طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے مجھے وہ دوست ہونے لگے چند عرصہ گزرنے کے بعد کونسل کی جانب کیبنٹ کو شفٹ کیا گیا جس میں مجھے سمیت شہید دُرا بھی شامل تھے شہید دُرا ہمارے کیبنٹ کے فنانس سیکرٹری بنے ایک ہی کیبنٹ میں ہونے کی وجہ سے ہماری ملاقات اکثر ہوتی رہی اس دوران میں نے اپنی پوری کیبنٹ میں شاہد کو بہت ہی ایمان دار پایا چاہے بلوچ اسٹوڈنٹس کا جس طرح کا بھی مسئلہ ہو شاہد در بی بی وہاں پہلے سے موجود ہوتے اور خود سے انہی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ یہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ یہ سندھ، پنجاب، جھلاوان، رخشان، مکران و کوہ سلیمان کا بلوچ ہے بلکہ ان کی اس مہرو محبت سے باقی کونسلوں میں موجود بلوچ اسٹوڈنٹس نے بلوچ کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی شہید شاہد کو زیادہ تر دوست محبت کی وجہ سے ناکو کر کے پکارتے تھے۔

شہید چونکہ ہمارے کیبنٹ کے فنانس سیکرٹری تھے مجھے ذاتی طور پر پیسوں کی ضرورت پڑی میں نے شہید سے کہا ناکو مجھے یار کچھ پیسے درکار ہیں چند دنوں کے لیے کچھ دے دو تو بعد میں جب آئیں گے تو واپس کر دوں گا شہید نے کہا کہ کونسل کے پیسے میں کسی بھی طرح نہیں دوں، تم کونسل کے کیبنٹ میں ہو لیکن یہ پیسے امانت ہیں مجھ سے کہا کہ دوستوں کو چائے پلانے و سگریٹ کے پیسے نہیں ہیں تمہارے پاس اور ۵ ہزار مجھے اپنی جیب سے نکل کر دیے اور کہا جاؤ اب ان سے چائے اور سگریٹ دوستوں کے ساتھ پی لو ایک دوسرے کو سمجھنے کے بعد ہم ایک دوسرے کے بہت قریب ہونے لگے۔

ایک دن بی ایس او آزاد کے دوستوں کی جانب سے مجھے کہا گیا کہ آپ یار ناکو کو بولو کہ وہ بی ایس او کے لیے کام کریں چند روز بعد میں ناکو سے ملا کہا یار بی ایس او آزاد کے دوستوں نے آپ کے لیے پیغام بھیجا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ کام کریں تو ناکو نے کہا یار میں دوسرے پارٹی کا پہلے سے ممبر ہوں کسی دوست کے کہنے پر میں نے ان کو جوائن کیا ہے لیکن ابھی تک ان کا طریقہ کار مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے میں چند وقت تک دیکھوں گا اگر ان کا طریقہ کار مجھے مطمئن کر سکا تو ٹھیک ورنہ میں سوچ کر بتاؤں گا۔ میں نے کہا ناکو ہم سب ابھی تک اسٹوڈنٹس ہیں اور اسٹوڈنٹس کی تربیت کے حوالے سے گراؤنڈ پر تنظیمیں موجود ہیں جو اچھی طرح سے ہماری تربیت کر سکیں گی دوسری جانب مذکورہ پارٹی ہے اگر وہ گراؤنڈ پر موجود ہیں وہ اگر بلوچ قومی تحریک کو اچھی سمت دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ وہاں پر اچھے انذار میں کام کر سکتے ہو تو بہتر ہوگا چند وقت بعد ناکو نے مذکورہ پارٹی کو یہ کہہ کر خیر باد کہہ دی کہ وہ ابھی تک اس گراؤنڈ پر موجود نہیں بس چند دوست ہیں جو ابھی تک تنظیم کو فعال کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ناکو جو زیادہ سیاسی حوالے سے باتونی نہیں تھا وہ صرف عمل کرنے پر یقین رکھتے تھے جب ۲۰۱۹ کو ان کی ڈگری مکمل ہونے والی تھی ہر وقت مجھ سے کہتے یار گل۔۔۔ بریانی کب کھلاؤ گئے ان باتوں سے ناکو کا مطلب قومی تحریک میں کب شامل ہوں گے کب تنظیم کو جوائن کریں گے تھا میں نے شاہد سے کہا ناکو ‘بریانی سک باز ایں تو بس وتی لاپ ء شر بکن باکی کُلیں کار بنت تو ہچ گم مکن تو ایشاں چہ وت سیر کنے ء’، ناکو نے یونیورسٹی کے دوران سے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بلوچ قومی تحریک میں شامل ہو کر قومی غلامی کے خلاف اپنا فرض ادا کریں گے گرمیوں کی شام کو کراچی کمپنی اسلام آباد کے فلیٹ میں ناکو کے پاس گیا دروازے پر بہت زیادہ دستک دی لیکن انہوں نے دروازہ بہت دیر سے کھولا جب میں نے شاہد کو دیکھا وہ پسینے سے شرابور تھے اور ان کی آنکھیں مکمل سرخ تھیں میرے بہت زیادہ اصرار کرنے پر ناکو نے بتایا کہ میں نے اس چھوٹے سے جگہ پر خود کو بند کر دیا اور اس چیز کو دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اگر کل کو دشمن کے ہاتھوں لگ گیا تو کیا میں ان دکھوں و تکلیفوں کو برداشت کر سکوں گا میں نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ناکو دشمن تم کو کسی بھی قیمت پر نہیں توڑ سکے گا اللہ تہی ایمان سلامت رکھے۔

اسی دوران ناکو اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد کیچ چلے گئے لیکن گھر میں بھی وہ سکون سے نہ رہ سکے کبھی احتجاج کے لیے یہاں وہاں بھاگتے پمفلٹ بانٹتے، دوستوں کو ایک جگہ کر کے پروگرام ترتیب دیتے رہتے فون پر حال احوال ہر وقت رہتا، ناکو کی باتیں وہی ہوتیں کہ  بریانی کب کھلاؤ گئے میں ہنستے ہوئے کہتا یار بریانی کھلانے والا مل جائے تو ساتھ کھائیں گے چند ماہ بعد ہماری ملاقات شال میں ہوئی ناکو اور میں شال کی گلیوں میں یہاں وہاں گشت کرتے رہیں کبھی پہاڑوں کے دامن میں ساتھ راتوں کو دیر تک بیٹھے رہتے تھے وہ اس دوران مجھے بے چین لگے نجانے کوئی بہت بڑا دکھ و تکلیف اندر سے ناکو کو کھا رہی تھی میں نے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا وہ بس قومی تحریک کے حوالے سے بات کرتے تھے میں خاموشی سے ان کی باتوں کو سنتا رہا اسی دوران مجھے ایک دوست کا میسج آیا کہ اس ویک اینڈ پر ہمارے دوستوں کو سرکل کے لیے کوئی اسپیکر چاہیے میں نے کہا ٹھیک ہے تو میں نے اسی وقت ناکو سے پوچھا یار کیا پڑھ رہے ہو آج کل کہنے لگا کہ میں غسان کنفانی کی کتاب (Men in the Sun) مین ان دا سن کو پڑھ رہا ہوں میں نے کہا ناکو یار بلوچستان یونیورسٹی کے دوستوں کو اس ویک سرکل دینا ہے کہنے لگا ٹھیک ہے۔

اس ویک اینڈ پر ناکو کی جانب سے اس ٹاپک پر سرکل دی گئی انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں غسان کو خود سمجھایا اور دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی دو گھنٹے تک اس پر بحث رہی شہید کے سرکلز میں ایک خوبصورتی یہ تھی کہ وہ دنیا کی جس بھی تحریک کا مطالعہ کرتے اس کو بلوچستان کے تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کرتے تھے جس سے وہاں موجود سننے والوں کے لیے سمجھنا آسان ہوتا تھا ناکو نے غسان کو مکمل بلوچستان کے روپ میں ڈھال لیا اور بلوچستان یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں موجود تقریباً سو کے قریب دوستوں کے سامنے بلوچ قومی تحریک کا ایسے ذکر کیا کہ وہاں موجود دوستوں کی جانب سے کہا جانے لگا کہ شاہد تھوڑا احتیاط کریں لیکن شہید شاہد نے کہا کہ قوم و قومی جنگوں اور غلامی میں کیسی احتیاط کرنی ہے اگر ہم سب شعوری لوگ غلامی کے خلاف خاموش ہو کر یا لفظوں کو توڑ مروڑ کر پیش کریں اور اس کو احتیاط کا نام دیں تو میری نظر میں یہ قومی تحریک اور قوم کے ساتھ منافقت ہے۔

اگست کے مہینے میں بلوچستان میں پنجابی ریاست کی جانب سے زبردستی جھنڈی اسٹال وغیرہ لگوائے جاتے تھے جن میں ریاست کی جانب سے خاص کار ان اسٹالوں پر عورتوں و بچوں کو رکھا جاتا ہے تاکہ ان پر بلوچ سرمچاروں کی جانب سے حملے نہ کیے جائیں اسی دوران دُرا اور میرا گزر روڈ سے ہوا میں نے شہید سے کہا یار پورے شالکوٹ میں آج کل پنجابی کے جھنڈی کو عورتیں اور ان کے چھوٹے بچے ان کے بغل میں فروخت کر رہے ہیں کہنے لگا میں حیران ہوں کہ کیا جھنڈا فروخت کرنا اتنا ہی ضروری ہے کہنے لگا بلوچستان کی سرزمین پر پنجابی کی جھنڈی کو کسی بھی حالت میں چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔

۲۰۲۰ میں ناکو نے اپنی قومی مسلح فوج بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور بولان کا رخ کیا جس صبح وہ بولان کے لیے رخصت ہوئے تو میں نے شہید سے کہا ناکو آپ کی شکل فدائی کوبرا سے ملتی ہے لگتا ایسا ہی ہے کہ تم بھی فدائی کوبرا کی طرح ایک بڑا معرکہ سر انجام دو گے ویسے بلوچ سرمچار سب فدائی ہیں جو آزاد وطن کے لیے مٹی کی محبت میں فدا ہو رہے ہیں ہنس کر کہنے لگا برو اڈے گم بو آخری بار شہید کے پیشانی کو چومنے کے بعد وہ اپنی منزل و مقاصد کی جانب بڑھے پھر وہاں سے ناکو شاہد سے دُرا بنے انہوں نے جنگ میں جنگی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کی اور جنگ میں جدید رجحانات و ٹیکنالوجی کے حوالے سے دوستوں کو سرپرست کرنے کی کوشش کی اور جنگ میں ڈرون کے ذریعے دشمن پر حملوں کی کئی بار کوششیں کیں جن میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے وہ کافی ذہین و فطین انسان تھے جس نے باقی دوستوں کو نئے طریقہ کار سے واقف کروایا اس بنا پر بولان میں دوستوں کے دل میں دُرا کو ایک خاص مقام حاصل ہوا وہ اپنے وزنی بیگ اور توپک کو کندھے پر رکھ کر کئی گھنٹوں کا مسافت کرتے تھے لیکن ہمیشہ مسکراتے ہوئے اپنے ذمے لیے کام کو سرانجام دینے کی کوشش کرتے تھے دُرا کو ان کی قابلیت و ذہانت کی بنا پر کم عرصے میں ہی تنظیم کی جانب سے گشتی کمانڈ کا عہدہ دیا گیا جس نے دُرا کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کیا۔

بقول دوستوں کے شہید کو بولان کے محاذ پر نہایت محبت و قدر ملی جنگ خود ایک بڑی تربیت گاہ ہے جو افراد کی زندگیوں پر حیرت انگیز حد تک اثر انداز ہوتی ہے کافی عرصہ بعد دُرا سے رابطہ ہوا تو میں نے اس کو نہایت سنجیدہ پایا میں نے دُرا سے کہا یار زیادہ سنجیدگی آپ پر اچھا نہیں لگتی تھوڑا سا کوچرائی کرو مجھے دُرا نہیں شاہد دربی بی سے بات کرنی ہے تو بہت مسکرایا کہنے لگا شاہد وڑ نیست انت ء نوں دُرا گوں گپ کن ہماں دُرا کہ نوں جنگول ایں پھر میں نے کہا یار میں دُرا کو دیکھنا چاہتا ہوں بہت وقت ہو گیا ہے فوٹو تو بھیج دو کہنے لگا تنظیم کی جانب سے فوٹوگرافی پر پابندی ہے لہٰذا کوئی اور طریقہ نہیں اگر دیکھنا ہے تو بولان آؤ میں نے کہا یار تھوڑا سا موسم سرد ہو جائے تو میں آؤں گا۔

لیکن میری شومی قسمت کو دُرا کا دیدار نصیب نہ ہوا پندرہ ستمبر ۲۰۲۳ کو شہید چراغ نے فون کر کے بتایا کہ شہید دُرا سمیت شہید میران محبت عرف گرو اور شہید فیض بزدار عرف دلجان ولی تنگی جنگ میں دشمن سے دوبدو لڑائی میں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے ہیں گو کہ اس خبر کو سننے سے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ادھر ادھر کچھ گھومنے کے بعد خود سے کہا یار دُرا انچو اشتاپ کنگی نیاں ترا لیکن خود کو نجانے کس طرح سے تسلی دینے کی کوشش کی کہ جنگ ہے اس میں شہادت ہی ہے جنگ میں پھولوں کی بارشیں کہاں ہوتی ہیں یہ وہ تب جا کر بھی خود کو مطمئن نہ کر سکا۔

دُرا بشک لوٹاں یار کہ میں آپ کے اعلی کردار پر کچھ لکھنے کی ناکام کوشش کئی بار کر چکا ہوں لیکن انصاف نہ کر سکا نہ شاید کوئی اور کر سکے گا لیکن دُرا جب سے آپ کی شہادت کی خبر ملی اسی دن سے کوشش کی کہ آپ کے ساتھ گزرے وقت اور واقعات پر چند سطر لکھوں لیکن قسم خداوند کی جب کوئی لفظ آپ کے نام لکھتا تو چند دن بعد پھر اسے ڈیلیٹ کر دیتا تھا کہ یہ لفظ دُرا کے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے کیونکہ آپ سے بہت سی یادیں اور واقعات جڑے ہوئے ہیں جو مجھے راستہ نہیں دیتے اور ان خیالات کو ترتیب دینے سے اب تک قاصر رہا ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔