سردار اختر مینگل کا خودکش دھماکے سے قبل خطاب: ریاستی مظالم کے خلاف بندوق کا سہارا لینے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں

748

کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے کے اختتام کے بعد سردار اختر جان مینگل کو اس وقت ایک خودکش دھماکے میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جب وہ پارکنگ سے باہر جارہے تھے۔ دھماکے میں اب 12 افراد کے جانبحق اور 31 سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ سردار اختر مینگل اس حملے میں محفوظ رہیں۔

یہ جلسہ کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی جانب سے پارٹی کے بانی سردار عطااللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر سریاب شاہوانی اسٹیڈیم میں منعقد کیا گیا۔

جلسے میں بی این پی کے کارکنان، رہنماؤں سمیت سردار اختر مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، وکلاء رہنما علی احمد کرد اور دیگر شخصیات شریک ہوئیں اور خطاب کیا۔

خودکش دھماکے سے قبل جلسے میں سردار اختر جان مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ سردار عطااللہ مینگل جیسے رہنما آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، مگر بلوچستان کے پہاڑ، صحرا اور سمندر اُن کے افکار اور جدوجہد کے گواہ ہیں، انہی قربانیوں اور جدوجہد سے بلوچستان کو پہچان ملی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے حقیقی رہنما آج زندہ ہوتے تو بلوچ خواتین سڑکوں پر ذلیل و خوار نہ ہوتیں اور ہمارے نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں نہ ملتیں۔

بی این پی رہنماء کا کہنا تھا بلوچوں پر ڈھائے گئے مظالم پر کبھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی لیکن اگر ہم اپنی بات کریں تو ہمیں ریاست مخالف قرار دیا جاتا ہے یہ کیسی ریاست ہے جو اپنے مظالم کو چھپانے کے بجائے الٹا مظلوموں کے خلاف مقدمے درج کرتی ہے؟

ڈاکٹر ماہ رنگ و بی وائی سی کی گرفتار قیادت کے حوالے سے انکا کہنا تھا ایک خاتون رہنما کو مہینوں جیل میں رکھ کر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے، لیکن مارشل لا لگانے والوں یا آئین پامال کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچوں کے خلاف ریاست کا رویہ واضح کرتا ہے کہ وہ خود کو حاکم اور بلوچوں کو غلام سمجھتی ہے اگر کوئی اس غلامی کے خلاف پتھر، لاٹھی یا بندوق اٹھاتا ہے تو میں اُسے سلام پیش کرتا ہوں، بشرطیکہ اُس کا ہتھیار کسی بے گناہ پر نہ اٹھے۔

اختر مینگل نے کہا کہ فوجی اقتدار کی ہوس نے ملک کو مشرقی پاکستان کے سانحے تک پہنچایا آج بھی وہی کھیل بلوچستان اور پختونخوا میں دہرایا جا رہا ہے تحریک انصاف کی نشستیں چھین کر اپنے لوگوں میں بانٹی جا رہی ہیں ماضی میں بنگالیوں کا خون بہایا گیا اور آج بھی اُس کا داغ وردی اور اسٹیبلشمنٹ پسند حکمرانوں پر باقی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں بلوچستان اور پختونخوا کے وسائل لوٹنے کے لیے حکومتیں بنائی جاتی ہیں اور بعد میں اُس لوٹ مار کو منظوری کا نام دیا جاتا ہے، لوگوں کو زبردستی لاپتہ کر کے اس ظلم کو قانون کا درجہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن جو لوگ پندرہ پندرہ سال سے لاپتہ ہیں کیا یہ قانون ہے؟

انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ وہ غلام ہے، لیکن ہم یہ غلامی قبول نہیں کریں گے ہمارے اجداد نے انگریز کی غلامی قبول نہیں کی تھی ہم بھی کسی اور کی غلامی برداشت نہیں کریں گے۔

اختر مینگل نے کہا کہ عدلیہ، میڈیا اور پارلیمنٹ سب جرنیلوں کے زیرِ اثر ہیں۔ فیصلے عدالتیں نہیں بلکہ وردی والے کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم بندوق اٹھانے والوں کے حامی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ بلوچ نوجوان بندوق اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئے؟ نوجوان پہاڑوں میں اپنی جانیں کیوں قربان کر رہے ہیں؟ یہ سب ریاستی پالیسیاں ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو اس راستے پر ڈالا ہے۔

انہوں نے اپنے تقریر کے آخر میں کہا کہ میں اُن نوجوانوں کے لیے دعا کرتا ہوں جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں، کیونکہ انہوں نے کبھی بلوچ ماؤں کے سروں سے دوپٹے نہیں چھینے اُن کا ہتھیار کسی بے گناہ کے خلاف نہیں بلکہ اپنی سرزمین اور وسائل پر قابض طاقتوں کے خلاف ہے۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وکلاء تحریک کے رہنما ایڈوکیٹ علی احمد کرد نے کہا کہ 14 جولائی 1960 کو جس دن حیدر آباد میں بلوچوں کو پھانسیاں دی گئی، اُس کو 65 سال گزر گئے لیکن آج بھی چند سو افراد کے سوا بلوچ اکیلا کھڑا ہے اور سرفراز بگٹی جو بڑے دعوے کرتا ہے، اگر وہ سچا ہے تو بلوچستان کی کسی شاہراہ پر سفر کر کے دکھائے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی جرنیل ایک بلوچ لڑکی سے خوفزدہ ہیں، بلوچ قوم نے ہمیشہ جبر کا مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرے گی مزید جرنیل آئیں گے لیکن بلوچ سرِتسلیم خم نہیں کریں گے۔

اس موقع پر بی ایس او پجار کے چیئرمین بالاچ بلوچ نے کہا کہ جب بلوچ انصاف کی بات کرتے ہیں تو اُنہیں ملک دشمن قرار دے کر سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے، بلوچ نے ہمیشہ آئین کی بات کی ہے، اصل دشمن وہ ہیں جو غیر آئینی اقدامات کرتے ہیں۔

سردار عطااللہ مینگل کے چوتھی برسی کے موقع پر منعقد جلسے سے خطاب مییں اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان اور پشتون وطن ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں، ایک طرف ریاستی مظالم ہیں تو دوسری طرف افغانستان میں زلزلے سے ہزاروں افراد جانبحق اور بے گھر ہو گئے ہیں، یہ کڑا وقت ہے مگر بلوچ اور پشتون متحد کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست نے جہاد کے نام پر پشتونوں کا خون بہایا اور اپنے آپ کو مضبوط کیا آج بھی ریاست ہماری ناموس اور وسائل پر قابض ہے اور بلوچ خواتین جیسے ماہ رنگ، بیبو اور گلزادی کو قید کر کے آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ بلوچ، پشتون اور سندھی ہزاروں سالوں سے اپنی سرزمین پر آباد ہیں اور پاکستان کو اپنی حقیقت تسلیم نہیں کرتے، کیونکہ پاکستان کی تاریخ محکوم اقوام پر جبری تسلط اور غلامی مسلط کرنے کی تاریخ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے حکمرانوں نے ماضی میں بنگالیوں کو محکوم رکھنے کی کوشش کی اور آج وہی کچھ بلوچ اور پشتون کے ساتھ کیا جا رہا ہے جس کے خلاف ہم ہمیشہ جدوجہد کرتے رہیں گے۔