سائجی کا شہزادہ شہید منور بلوچ – البُرز بلوچ

74

سائجی کا شہزادہ شہید منور بلوچ

تحریر: البُرز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سرزمین، جہاں ہر پہاڑ، ہر وادی اور ہر پتھر اپنے سینے میں قربانیوں کی ایک طویل داستان چھپائے بیٹھا ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں زندگی کی خاطر قربانی کا فلسفہ ہر فرزند کے دل میں بسا ہوا ہے۔ اس مٹی سے جنم لینے اور اس فضا میں سانس لینے والے نوجوانوں میں سے ایک شہزادے نے دشت کے میدان میں اپنی آنکھیں کھولیں۔ کسے معلوم تھا کہ یہ کمزور جسم والا نوجوان ایک دن اس دھرتی کا سچا فرزند بن کر آزادیِ گلزمین کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے اپنی جان قربان کردے گا۔ بلوچ سرزمین کی تاریخ لہو سے لکھی گئی ہے۔ یہ وہ لہو ہے جو صرف جسموں سے نہیں بلکہ نظریات سے بھی ٹپکتا ہے۔ یہ قربانیاں صرف قبروں میں دفن نہیں ہوتیں بلکہ قوموں کی روح میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتی ہیں۔ وہ کمزور جسم مگر عظیم فکر کا مالک نوجوان منور بیگ تھا۔ شہید منور جان، جنہوں نے صرف اٹھارہ برس کی عمر میں سائجی کے سنگلاخ پہاڑوں میں دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے پہاڑ کو اپنا مسکن بنایا۔ وہ بلوچ قوم کے ان عظیم فرزندوں میں شمار ہوئے جنہوں نے ذاتی آرام و عیش کو ترک کرکے قومی آزادی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور ہمیشہ کے لیے بلوچ قومی تاریخ میں امر ہوگئے۔

منور جان کی پرورش اس دشت کے ماحول میں ہوئی جہاں قومی شعور اور محبت ہر بچے کی رگ رگ میں دوڑتی ہے۔ کم عمری میں ہی انہوں نے استحصالی نظام، فوجی جارحیت اور قومی غلامی کی حقیقت کو جان لیا تھا۔ وہ عام نوجوانوں کی طرح صرف ذاتی زندگی بہتر بنانے کا خواب نہیں دیکھتا تھا، بلکہ اس کا خواب ایک آزاد و خود مختار بلوچ وطن تھا، جہاں بلوچ قوم اپنے فیصلے خود کرے، اپنی زبان، ثقافت اور سرزمین پر مکمل اختیار رکھے۔ انہوں نے بلوچ مزاحمتی تحریک سے جڑ کر اپنے آپ کو ایک انقلابی کے طور پر تشکیل دیا۔ وہ جانتے تھے کہ اس راستے میں تکلیفیں، قربانیاں اور شہادتیں مقدر ہیں، مگر انہیں نہ صرف قبول کیا بلکہ فخر کے ساتھ آخری گولی اپنے سینے پر کھائی۔

جب اُن کی والدہ کو ان کے بیٹے کی شہادت کی اطلاع دی گئی تو وہ رونے کے بجائے سب کو خبردار کرتی ہیں کہ جو آنسو بہائے گا وہ میرے گھر میں داخل نہ ہو؛ میرے بیٹے نے شہادت پا کر اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے امر کر لیا ہے۔ وہ گیا نہیں بلکہ ہر نوجوان کے دل میں دھڑکتا ہے۔ انہیں علم ہے کہ ان کے بیٹے نے کس عظیم مقصد کے لیے اپنا لہو بہایا ہے۔ وہ اپنا سینہ تان کر ہمت کی مثال بن جاتی ہیں۔ جب بلوچ مائیں اس طرح دلیر و باہمت ہوں تو یہ دھرتی کبھی بانجھ نہیں ہوگی، بلکہ آخری فرد تک ظالم و جابر دشمن کے خلاف مزاحمت کرے گی۔

اٹھارہ برس کی عمر، جب دنیا میں نوجوان اپنے مستقبل کے لیے تعلیم، نوکری یا تفریح کے بارے میں سوچتے ہیں، اس عمر میں منور جان نے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوکر قومی آزادی کی لڑائی کو چنا۔ سائجی کے پہاڑوں میں دشمن کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران جب وہ شدید زخمی ہوئے تو پیچھے ہٹنے کے بجائے آخری دم تک لڑتے رہے اور بالآخر جام شہادت نوش کیا۔ اس کی شہادت بلوچ قومی تحریک میں مزاحمت کی وہ عظیم مثال ہے جس سے بلوچ قوم کی بنیاد قائم ہے۔ شہید منور جان جیسے فرزند ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ اور قومی مزاحمت کے روشن چراغ ہیں جو کبھی بجھتے نہیں بلکہ ہمیشہ اس سرزمین کو منور رکھتے ہیں۔

جواں سال اس فرزند نے نہ صرف بندوق تھامی بلکہ دشمن کے سامنے جھکنے کے بجائے آخری سانس تک لڑنے کا فیصلہ کیا۔ سائجی کے معرکے میں جب دشمن نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو اسی نڈر نوجوان نے اپنے ساتھیوں کو باہر نکالا اور خود آخری گولی کا فلسفہ اپنا کر ہمیشہ کے لیے دشت کی مزاحمتی سرزمین کی گود میں سما گیا۔ وہ گولی نہ صرف دشمن کے لیے تھی بلکہ ایک نظریاتی اعلان تھا کہ بلوچ سرمچار غلامی میں جینے کے بجائے لڑتے ہوئے مرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ منور نے اپنی آخری گولی خود کے سینے میں اتار کر خود کو بلوچ قومی تاریخ میں امر کر دیا۔ اُس لمحے منور صرف ایک لڑاکا نہیں تھا، وہ بلوچ تاریخ کا استعارہ بن گیا تھا، وہ صدا جو آنے والی نسلوں کو یاد دلاتی رہے گی کہ جب بندوق میں صرف ایک گولی باقی رہ جائے، تب بھی ہتھیار ڈالنا بلوچ غیرت اور قومی وقار کے خلاف ہے۔

شہید منور جان جیسے نوجوان نہ صرف بلوچ قوم کا فخر ہیں بلکہ انسانی تاریخ میں آزادی کے علمبرداروں کی اس روایت کا تسلسل بھی ہیں، جو ہر دور میں ظلم و جبر کے خلاف کھڑے ہوتے آئے ہیں۔ ان کی شہادت ایک پیغام ہے کہ غلامی کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے، اور آزادی کی راہ میں قربانی ہی وہ ہتھیار ہے جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ سائجی کے پہاڑ آج بھی اس کے لہو کی خوشبو سے مہک رہے ہیں اور بلوچ قوم اس کے عزم و قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ منور جان آج بھی سائجی کی پہاڑیوں میں گونج رہا ہے۔ اس کی چیخیں خاموش نہیں ہوئیں، اس کا لہو آج بھی پہاڑوں میں گواہی دیتا ہے کہ بلوچ قوم ابھی زندہ ہے اور اس کے نوجوان اب بھی آزادی کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ اس نے جو پیغام دیا، وہ صرف آزادی نہیں بلکہ عزت، غیرت اور فلسفہِ حیات کا پیغام ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔