درد کا قافلہ – سنج بلوچ

2

درد کا قافلہ

تحریر: سنج بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

صغیر بلوچ، جس کے بارے میں مجھے لکھنے سے اتنی درد اور تکلیف کا سامنا ہو رہی ہے تو جس ماں باپ نے اسے پیدا کیا، اس کی پرورش کی انہیں کتنی درد ہوگی، انہوں  نے سپنے دیکھیں کہ بڑا کر ہمارا سہارا بنے گا مگر افسوس کہ وہ دوسری مرتبہ اس ریاست کے ہاتھوں لاپتہ ہوا جس کے پاس انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔

بقول سنگت کہ تضاد ہے تو بے گواہی ہے۔ جبری گمشدگی ایک بہت بڑے درد اور تکلیف کا نام ہے کہ پتہ نہیں کب، کہاں، کون جبری گمشدہ ہو جائے۔ ان ٹارچر سیلوں میں جائے جہاں ایک انسانی زندگی کا وجود نہیں رکھتا، جہاں پر ایک بلوچ ہونے کی سزا دی جائے۔

صغیر بلوچ کو میں نے پہلی مرتبہ کراچی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں 2016 میں دیکھا تھا، مگر مجھے اس کے بارے میں اتنا علم نہیں تھا کہ کون ہے، کہاں رہتا ہے کیونکہ میرا پہلا سمسٹر پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں تھا۔ اس انجانے سے یونیورسٹی میں، کیونکہ صغیر میرا سینئر تھا۔ یہ میرا پہلا سمسٹر تھا جب میرا صغیر کے ساتھ ایک رشتہ بلوچ ہونے کی وجہ سے قائم ہوا تھا۔

جب بھی میرا حال احوال اس سے ہوتا تو مجھے کہتا کہ اگر کچھ سمجھ نہ آئے تو مجھ سے ضرور پوچھنا۔ وہ اچھے طریقے سے مجھے گائیڈ کرتا۔ اس طرح سے جب میں بھی BSEO کے سرکل میں جاتی، کیونکہ بلوچ طلبہ نے ہمیشہ اپنے بلوچوں کے حقوق کے لیے ہر میدان میں آواز بلند کی ہے۔ یونیورسٹی میں نئے طلبہ کی ایڈمیشن ہو یا کوئی پروگرام، بلوچ طلبہ نے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں۔

ایک مرتبہ جب BSEO کے ایک پروگرام میں، جو جوہر موڑ کے قریب ایک ہال میں منعقد کیا گیا تھا، صغیر نے ایک اسپیچ کی جو مجھے آج بھی یاد ہے۔ مگر غلامی کی وجہ سے ہمارے قریب ترین لوگ آج زندانوں کی نذر ہیں۔ اس انسان جس سے سلام دعا ہوتی، اس کے بچھڑنے کا درد ایک اذیت ہے۔

بلوچ قوم جبری گمشدگی کا شکار ہے، جو کہ ایک سنگین معاملہ ہے جس پر بلوچ قوم کو سوچنا چاہیے کیونکہ ہر بار یہ سوچنا کہ بین الاقوامی ممالک مدد کریں گے تو یہ وہم ہوگا۔ اپنے لیے خود آواز بلند کرنی چاہیے۔

20 اکتوبر 2017 کو اکتوبر کے مہینے میں جب ہمارے سالانہ پیپرز ہو رہے تھے، جس دن ہمارے ماس کمیونیکیشن کا پیپر تھا، میں ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے پیپر کے بعد گھر جا رہی تھی۔ راستے میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے قریب صغیر موٹر سائیکل سے پیپر دینے کے بعد آ رہا تھا۔ اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو؟ تو میں نے جواب دیا کہ گھر۔ پھر پوچھا کہ پیپر کیسا ہوا؟ تو میں نے کہا کہ پاس ہو جاؤں گی۔

میں وہاں سے روانہ ہوئی تو شام کے وقت یعنی تقریباً سات بجے مجھے معلوم ہوا کہ صغیر کو CCS کینٹین سے ریاستی اداروں کے لوگوں نے جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔ یہ بات لکھنے میں اتنی تکلیف دہ ہوتی ہے تو سوچو جو اس عمل کا وکٹم ہوگا، جو جبری گمشدہ ہوا ہوگا، اس پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ صغیر کی پڑھائی، اس کا کیریئر، اس کی زندگی پر اس عمل کا کتنا بڑا اثر پڑے گا۔

کیا یہ ریاست ماں کا کردار ادا کر رہی ہے یا ایک ظالم و جابر ریاست کا کردار؟ یہ بات واضح ہے کہ بلوچ کی شناخت و بقاء کی جنگ ہے، جس سے بلوچ قوم آشنا ہے۔ صغیر بلوچ کو آٹھ مہینے کے بعد 2018 میں بازیاب کیا گیا۔ یہ آٹھ مہینے کیسے گزرے، کون سا لمحہ کتنا تکلیف دہ تھا، یہ درد بس ان لوگوں کو معلوم ہوگا جو اس درد اور اذیت سے گزرے۔

بلوچ تاریخ میں بلوچ خواتین کی قربانی کی بات کی جائے تو بلوچ خواتین کی قربانیوں میں ایک نام جو حمیدہ جان کا ہے، جو کینسر کی وجہ سے رواں سال وفات پا گئیں۔ میرے لیے وہ ایک رول ماڈل، ایماندار بہن اور ایک بہترین سچی دوست تھیں۔

جب 2022 میں حمیدہ جان کا آپریشن کوئٹہ میں جیلانی ہسپتال میں رمضان کے مہینے میں ہوا تو اس وقت صغیر حمیدہ کے لیے ایک والد کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس نے ایک والد، دوست اور بھائی سے بڑھ کر قربانیاں دی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ حمیدہ اس کے لیے ایک قیمتی اثاثہ تھی۔

اپنے چھوٹے بھائی کے لیے وہ اس کی خوشی کا ضامن تھی۔ مجھے یاد ہے ہر وقت حمیدہ صغیر کے لیے دعائیں کرتی، کہ صغیر کو کچھ نہ ہو، خدا اس کو کبھی تکلیف نہ دے۔ مگر افسوس آج دوبارہ صغیر ٹارچر سیلوں میں بلوچ ہونے کی سزا بھگت رہا ہے، اور اب حمیدہ نہیں ہے کہ اس پر آواز بلند کریں۔

یکم مئی 2019 کو صغیر اور حمیدہ کا چھوٹا بھائی ظفیر بالگتر میں شہید ہوا مگر انہوں نے صبر کا مظاہرہ کیا۔ کتنی تکلیف دہ بات ہوتی ہے کہ لخت جگر کے شہید ہونے کی خبر کسی ماں باپ تک پہنچے۔ مگر صغیر کی ہمت کو سلام کہ اس نے مشکلات کے باوجود گھر والوں کی ذمہ داریوں کو پورا کیا۔

صغیر کو جب پہلی مرتبہ جبری لاپتہ کیا گیا تو اس کی والدہ نے چھ مہینے تک اپنے بیٹے کی واپسی کے لیے روزے رکھے اور پیدل کوہ مراد زیارت شریف گئیں۔

بلوچ قوم میں ہزاروں درد بھری کہانیاں ہمارے اردگرد موجود ہیں، کہ ہمارے لوگ کس درد، تکلیف اور اذیت سے دوچار زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر ہماری کمزوری ہے کہ ہم اپنے لوگوں کے درد اور تکلیف کو بیان نہیں کر سکتے۔

جہاں تک صغیر جان کا تعلق ہے تو صغیر ایک ایماندار بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہمدرد بھائی بھی ہے۔ میں نے خود محسوس کیا کہ صغیر ایک صاف دل انسان تھا جس نے کبھی بھی کسی کا برا نہ سوچا۔ مگر آج وہ تین مہینوں سے ٹارچر سیلوں میں بند ہے۔ صغیر پر کوئی پوسٹ دیکھ کر مجھے اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ آج حمیدہ نہیں ہے کہ اس پر آواز بلند کرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔