جبری گمشدگی صرف فرد کو نہیں، پورے خاندان کو اذیت میں مبتلا کرتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی

23

بی وائی سی نے کہا ہے کہ جبری گمشدگی کا درد خاندانوں کے لیے جسمانی اور نفسیاتی چیلنج بن چکا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے زاہد علی کے والد کی اچانک طبیعت بگڑ جانے کے باعث آج احتجاجی کیمپ مؤخر کردیا گیا، یہ احتجاجی کیمپ آج اپنے مسلسل 42ویں دن میں داخل ہونا تھا۔

بی وائی سی کے مطابق زاہد علی کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کے 25 سالہ طالب علم ہیں، جنہیں 17 جولائی 2025 کو لیاری سے ان کے رکشے سمیت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

بی وائی سی نے کہا ہے کہ زاہد علی بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف اہلِ خانہ نے کراچی میں احتجاجی کیمپ قائم کر رکھا تھا جو 40 روز جاری رہا۔

انہوں نے کہا زاہد کے والد عبدالحمید جو ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں بیماری کے باوجود مستقل طور پر کیمپ کی قیادت کرتے رہے تاہم آج ان کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہو گئی جس کے باعث احتجاجی کیمپ کو دوسری بار مؤخر کرنا پڑا۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ تکلیف دہ وقفہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا اثر صرف لاپتہ شخص پر ہی نہیں بلکہ پورے خاندان پر بھی اذیت ناک انداز میں پڑتا ہے۔

اہلِ خانہ غیر یقینی حالات میں جینے پر مجبور ہیں اور اپنے ہی وجود اور صحت کی قیمت پر انصاف کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔

اہلِ خانہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ زاہد علی سمیت تمام لاپتہ افراد کو بحفاظت بازیاب کیا جائے۔