جبری گمشدگیوں کے عمل کو قانوناً مجرمانہ قرار دیا جائے، بی وائی سی کا اسلام آباد پریس کانفرنس میں مطالبہ

4

اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاجی کیمپ جاری ہے، جہاں متعدد لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

آج دھرنے کے مقام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں جمہوری سیاست کو آج تک پنپنے نہیں دیا گیا اور سیاسی کارکنوں کو ہمیشہ جبر کے ذریعے خاموش کرایا گیا ہے۔

رہنماؤں نے کہا ہم لواحقین ضرور ہیں، مگر ساتھ ہی عوام کی اکثریت کے مؤقف کے نمائندہ بھی ہیں ہمارا مقصد ان خاندانوں کی آواز بننا ہے جو ریاستی جبر کا شکار ہیں۔

پریس کانفرنس میں نظر مری کی جبری گمشدگی کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا، رہنماؤں نے بتایا کہ نظر مری ایم فل بایو کیمسٹری کے اسکالر اور کوہلو کے رہائشی ہیں، جو گزشتہ دس برس سے کوئٹہ میں مقیم ہیں اور طلبہ سیاست کے ساتھ ساتھ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سرگرم کارکن کے طور پر پرامن سیاسی جدوجہد میں متحرک رہے ہیں۔

بی وائی سی کے مطابق 27 اگست کی شام ساڑھے سات بجے کوئٹہ کے گولی مار چوک پر بلال کیفے کے سامنے درجنوں افراد کے سامنے ٹی ڈی اور پولیس اہلکاروں نے نظر مری کو جبری طور پر لاپتہ کیا آٹھ روز گزرنے کے باوجود ان کی بازیابی کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اہل خانہ نے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے انکار کردیا۔

تنظیم نے کہا کہ نظر مری کی جبری گمشدگی ان کی آزادی سلب کرنے کا جرم ہے اور ان کے اہل خانہ کو اذیت ناک انتظار میں مبتلا کر کے اجتماعی سزا دی جا رہی ہے رہنماؤں نے سوال اٹھایا پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو لاپتہ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگیوں کو فوری طور پر بند کیا جائے اس عمل کو قانوناً مجرمانہ قرار دیا جائے اور نظر مری سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔