جبری لاپتہ طالب علم زاہد علی بازیاب نہ ہوسکے، والدین کا دھرنا جاری

11

کراچی پریس کلب کے سامنے جبری لاپتہ بلوچ طالب علم زاہد علی کے والدین کا دھرنا جاری ہے۔

17 جولائی کو کراچی سے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے زاہد علی بلوچ کو حراست میں لیا تھا، جس کے بعد سے وہ منظرعام پر نہیں آسکے ہیں۔

زاہد علی کی جبری گمشدگی کے خلاف ان کے والد عبدالحمید اور والدہ گذشتہ چالیس روز سے کراچی پریس کلب کے باہر کیمپ قائم کرکے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

عبدالحمید جو خود ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں نے اس حوالے سے بتایا کہ ان کا بیٹا کراچی یونیورسٹی کا طالب علم ہے جو اپنے فارغ وقت میں رکشہ چلا کر گھر کے اخراجات پورے کرتا اور ان کے علاج کا بندوبست بھی کرتا تھا، ایک روز فورسز نے اسے رکشہ سمیت حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

زاہد علی کے والدین اور دیگر لواحقین نے اس سے قبل ماڑی پور کے قریب بھی دھرنا دیا تھا۔ 

عبدالحمید کے مطابق اس دھرنے کے دوران کراچی پولیس اور انتظامیہ نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے بیٹے کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں گی، تاہم کئی روز گزرنے کے باوجود کوئی رابطہ یا اطلاع نہیں دی گئی اب وہ دوبارہ شدید موسمی حالات میں کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج پر مجبور ہیں۔

لاپتہ طالب علم کے والدین نے حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ ان کے بیٹے کو منظرعام پر لایا جائے اور اس کی بازیابی میں کردار ادا کیا جائے۔

زاہد علی کی والدہ جو اپنے شوہر کے ساتھ دھرنے میں شریک ہیں کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا والدین کا واحد سہارا تھا گھر کا چولہا اس کی محنت سے جلتا تھا اور وہ اپنے بیمار والد کا علاج بھی مشکل حالات میں کراتا رہا لیکن جب سے وہ جبری گمشدگی کا نشانہ بنا ہے وہ شدید اذیت اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کراچی کے نمائندوں سول سوسائٹی اور بلوچستان کے سیاسی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ زاہد علی کے لیے آواز اُٹھائیں۔