بی این ایم چیئرمین کا کوئٹہ حملے کی مذمت: پارلیمان پرست بلوچ جماعتیں بھی محفوظ نہیں

19

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ بی این پی کے جلسے کو نشانہ بنانا اختر مینگل کو قتل کرنے کی دوسری بڑی کوشش ہے اس سے قبل بھی ان کے کوئٹہ لانگ مارچ کو خودکش حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ پاکستان بارہا ثابت کر رہا ہے کہ بلوچستان میں نہ صرف سیاست بلکہ سانس لینا بھی صرف ایک ہی شکل میں ممکن ہے بلوچ نسل کشی، اجتماعی سزا، وسائل کے استحصال اور بلوچ قومی شناخت و بقا کو مٹانے کے لیے ریاست اور ریاستی افواج بلا چون و چرا حکمت عملی پر عمل کر رہی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کسی بھی شخص کی معمولی مخالفت پر ریاست اسے عبرت کے طور پر نشانہ بنا سکتی ہے۔

بی این ایم چیئرمین نے مزید کہا کہ بی این پی کے جلسے پر حملہ بنیادی طور پر ان بلوچ سیاسی حلقوں کے لیے پیغام ہے جو پاکستانی فریم ورک میں سیاست کے حامی ہیں۔ 

انہوں نے نشاندہی کی کہ ریاست چاہے حملے کو داعش یا کسی دیگر گروہ کے نام سے ظاہر کرے یا پردہ اخفا میں رکھے، ریاستی خاموشی سے جرائم نہیں چھپائے جا سکتے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ اگرچہ انہیں بی این پی کی سیاست سے اختلاف ہے، لیکن جلسے پر حملہ بلوچ نسل کشی کے تسلسل کا حصہ ہے اور اسے سخت مذمت کی جانی چاہیے۔ 

انہوں نے پارلیمانی حلقوں کو یاد دلایا کہ پاکستان نے بلوچ کے لیے سیاست کو مشکل اور خطرناک بنا دیا ہے، اور صرف وہی زندہ رہ سکتے ہیں جو فوج کے تابع فرمان ہو کر سر تسلیم خم کریں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی پارلیمان میں حلف اٹھانے والے ممبران کی محدود آواز بھی برداشت نہیں کرتا اور بلوچستان میں سیاست، مزاحمت اور جمہوری اظہار کو دہشت گردی کے ہتھیاروں سے کچل رہا ہے، یہ حملہ ریاستی جنگی جرائم کو بے نقاب کرتا ہے اور عالمی برادری کے لیے ایک سوال چھوڑتا ہے کہ بلوچ کے بہتے لہو پر یہ خاموشی کب تک برقرار رہے گی۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مزید کہا کہ اگر ایک سردار اختر مینگل جیسا پارلیمانی سیاستدان محفوظ نہیں ہے، تو بلوچ نوجوان، خواتین اور بچے جو آزادی کا خواب دیکھتے ہیں ان کے لیے پاکستان کس حد تک ظالمانہ اور خونی ہے اور بلوچستان میں قومی آزادی کے لیے آواز اٹھانے والوں کے ساتھ ریاست کا وحشت ناک سلوک کتنا سنگین ہے۔