بلوچ جبری گمشدگیاں اور سیاسی گرفتاریاں: اسلام آباد و کراچی میں دھرنے جاری

19

اسلام آباد اور کراچی میں بلوچ سیاسی قیادت کی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی دھرنے بدستور جاری ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کلب کے قریب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری اور بلوچستان سے جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے مطالبے پر جاری دھرنے کو آج 52 دن مکمل ہوگئے۔ 

دھرنے میں شریک مظاہرین کا تعلق جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین سے ہے، جن میں بزرگ خواتین، مائیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

لواحقین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار قیادت کو رہا کیا جائے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو بند کرکے جبری لاپتہ افراد کو منظرعام پر لایا جائے۔

اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تقریباً دو ماہ سے یہ خاندان شدید گرمی، بارشوں، ہراسانی اور مسلسل نگرانی کے باوجود اپنے جائز اور سادہ مطالبے کے ساتھ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ طویل احتجاج کے باوجود پاکستانی حکام نے بلوچ لواحقین کی پریس کلب تک رسائی بند رکھی ہے اور انھیں دھرنے کے لیے کیمپ کی اجازت نہیں دی جا رہی اور مظاہرین کو دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے لیکن ان کے مطالبات پر غور نہیں کیا جا رہا۔

دوسری جانب کراچی پریس کلب کے سامنے بھی جبری گمشدگی کے شکار طالب علم زاہد علی اور دیگر کی بازیابی کے لیے دھرنا 32 ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ 

دھرنے میں شریک لواحقین کے مطابق چند روز قبل حکام نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے پیاروں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں گی لیکن اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

اسلام آباد اور کراچی کے دھرنوں میں شریک بلوچ لواحقین نے حکومت اور پاکستانی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں جاری مظالم پر خاموش ہیں اور طویل احتجاج کے باوجود ان کے مطالبات نظرانداز کیے جا رہے ہیں جو انسانی اور شہری حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

مظاہرین نے انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر کا نوٹس لیں اور پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے۔