بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نمائندوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں انصاف ناپید ہے اور عدالتیں بھی ریاستی اداروں کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔
لواحقین کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 54 دنوں سے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں تاکہ جبری گمشدگیوں کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کر سکیں، لیکن ریاستی رویہ ظالمانہ اور غیر شفاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کو دن دہاڑے عوام پر ظلم کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور نہ تو کوئی مؤثر نگرانی ہے اور نہ ہی احتساب کا نظام عدالتیں جو انصاف کی آخری امید ہونی چاہییں، خود کو ان اداروں کے سامنے بے بس پاتی ہیں۔
پریس کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ سال 2025 کے صرف پہلے آٹھ ماہ میں ایک ہزار سے زائد جبری گمشدگیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
بی وائی سی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر بات کرتے ہوئے مظاہرین نے کہا کہ مارچ میں جعفر ایکسپریس واقعے کو بنیاد بنا کر ایک منظم کارروائی کے ذریعے کمیٹی کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا ان پر کوئی جرم ثابت نہیں کیا جا سکا مگر پھر بھی انہیں مسلسل قید رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تین ماہ تھری ایم پی او جیسے کالے قانون کا سہارا لیا گیا اور اب ہر پیشی پر سی ٹی ڈی محض ریمانڈ کی درخواست دیتی ہے اور عدالتیں بنا سوال کیے ریمانڈ دیتی جا رہی ہیں، وکلا بارہا پچھلے ریمانڈز کی رپورٹس مانگ چکے ہیں مگر عدالتیں سی ٹی ڈی سے جواب طلب کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتیں۔
بی وائی سی رہنماؤں نے بتایا کہ قیادت پر گزشتہ دو برس میں پُرامن احتجاج اور ویڈیو بیانات کی بنیاد پر درجنوں جھوٹے مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں سے صرف تین مقدمات کی کارروائی مکمل ہوئی ہے جبکہ تیس سے زائد ابھی باقی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ پیشی میں عدالت نے اعلان کیا تھا کہ مزید ریمانڈ نہیں دیا جائے گا مگر کل چھٹی کے روز اور ربیع الاوّل کے موقع پر نیٹ و راستوں کی بندش کے دوران جب وکلا اور رشتہ دار موجود نہ تھے، تو پانچ دن کا ریمانڈ دے دیا گیا۔
مظاہرین نے سوال اٹھایا کہ اگر عدالتیں پُرامن سیاسی کارکنان کو بھی انصاف دینے سے قاصر ہیں تو ایک عام بلوچ، جیسے ایک چرواہے کو، انصاف کی کوئی امید کیسے ہو سکتی ہے؟