ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بلوچستان میں انٹرنیٹ بندش اور پابندیوں کو انسانی حقوق کی سنگین پامالی قرار دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل ساؤتھ ایشیا نے 6 ستمبر کو بلوچستان میں موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل کرنے کے حکومتی فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف لوگوں کے حقِ معلومات اور آزادیِ اظہار پر حملہ ہے بلکہ بلوچستان کو دنیا سے کاٹنے کی ایک منظم کوشش بھی ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے عوام کے لیے موبائل انٹرنیٹ دنیا سے رابطے کا بنیادی ذریعہ ہے اور اس کی بار بار بندش ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں بلوچستان حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اس ہتھکنڈے کو احتجاجی آوازوں کو دبانے اور حقائق چھپانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔
ایمنسٹی نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں انٹرنیٹ سروسز کو فوری طور پر بحال کیا جائے اور شہریوں کو اظہارِ رائے، نقل و حرکت اور پُرامن احتجاج کے حق سے محروم کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ اگست کے آغاز سے بلوچستان بھر میں موبائل انٹرنیٹ سروس معطل ہے، جبکہ رواں ماہ چند اضلاع میں انٹرنیٹ بحالی کے بعد دوبارہ معطل کردیا گیا ہے۔
بلوچستان میں انٹرنیٹ بندش کا حکم صوبائی حکومت نے جاری کیا تھا، تاہم بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے انٹرنیٹ بحالی کے فیصلے کے باوجود صوبے کے بیشتر اضلاع اب بھی انٹرنیٹ سروسز سے محروم ہیں۔
مقامی افراد نے شکایت کی ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش کے باعث طلبہ و طالبات شدید تعلیمی مسائل کا شکار ہیں وہ نہ صرف آن لائن کلاسز، داخلہ فارم، اسکالرشپ درخواستوں اور تعلیمی مواد تک رسائی سے محروم ہیں بلکہ دیگر اہم تعلیمی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسی طرح عام شہری بھی آن لائن بینکنگ، روزگار کے مواقع، معلوماتی وسائل اور روزمرہ کے دیگر اہم کام انجام دینے میں مشکلات سے دوچار ہیں۔
حکومت نے انٹرنیٹ معطلی کی وجہ بلوچستان کی سیکورٹی صورتحال کو قرار دیا ہے، تاہم سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے حلقوں نے حکومت سے فوری طور پر انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔