ایس سی او سمٹ اعلامیہ – ٹی بی پی اداریہ

2

ایس سی او سمٹ اعلامیہ

ٹی بی پی اداریہ

شنگھائی تعاون تنظیم کے پچیسویں سربراہ مملکت کونسل اجلاس کے اعلامیہ میں بلوچستان کے ضلع خضدار میں اسکول بس پر حملے اور ڈھاڈر میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ اس اعلامیہ میں بلوچ قومی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے جو بلوچستان کی زمینی حقیقتوں کی درست نمائندگی نہیں ہے۔ سات دہائیوں پر محیط بلوچ تحریک محض تشدد پر مبنی سرگرمی نہیں بلکہ قومی حقوق، آزادی اور حقِ حاکمیت کی جدوجہد ہے، جسے دہشت گردی کے زمرے میں ڈالنا حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان ہمیشہ کثیرالجہتی، مذاکرات اور سفارت کاری پر یقین رکھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے بحران میں اسلام آباد نے ہمیشہ مذاکرات کے بجائے فوجی طاقت کے استعمال کو ترجیح دی ہے، جو پاکستان کی پالیسیوں میں گہری تضاد کو عیاں کرتا ہے۔ مرکز کے بیانات اور بلوچستان میں جاری عملی اقدامات کے درمیان یہ فرق واضح کرتا ہے کہ ریاستی رویہ داخلی سطح پر طاقت اور جبر پر مبنی ہے جبکہ بین الاقوامی فورمز پر امن و مفاہمت کا تاثر دیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بلوچ جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینے کی مہم زمینی حالات کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ تحریک اپنی بنیاد میں مقامی ہے۔ بیرونی عناصر کی موجودگی یا عدم موجودگی سے زیادہ، اس جدوجہد کی جڑیں بلوچ سماج اور اس کی تاریخی شکایات میں پیوست ہیں۔ بلوچ آزادی کے لئے سرگرم مسلح گروہوں پر عالمی پابندیاں بھی لگائی گئیں، مگر ان پابندیوں سے تحریک کے ڈھانچے کو کمزور کرنے کے بجائے بعض اوقات یہ تنظیمیں مزید منظم ہو کر سامنے آئیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیرونی دباؤ تحریک کی سمت کو متاثر نہیں کر پایا۔

بلوچ قومی تحریک کو شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے خطرہ قرار دینا دراصل پاکستان کی اختراع ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں جاری جدوجہد کا ہدف کسی بیرونی ریاست یا خطے کے خلاف نہیں بلکہ اپنے وسائل اور زمین پر حقِ حاکمیت کا حصول ہے۔ یہی پہلو اسے خطے کے دوسرے تنازعات سے جدا کرتا ہے اور اسے محض “دہشت گردی” کے بیانیے میں محدود کرنا غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے۔