افغانستان میں زلزلے سے تباہی اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ

46

مشرقی افغانستان میں زلزلے کے نتیجے میں 800 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے تھے جس کے نتیجے میں زندہ بچ جانے والے افراد نے رات کھلے میں تلے گزاری۔

افغانستان میں طالبان حکومت اور اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ کنڑ اور ننگرہار صوبوں میں 800 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 2500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

مشرقی افغانستان کے صوبہ کنڑ کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن خراب موسم کی وجہ سے اب بھی متعدد علاقوں تک پہنچنے میں شدید مُشکلات کا سامنا ہے۔

لینڈ سلائیڈنگ اور سڑکوں کی بندش کے باعث متعدد زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کنڑ سینٹرل ہسپتال اور دارالحکومت منتقل کیا گیا ہے تاہم بتایا جارہا ہے کہ متعدد دیہات میں لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی 20 تشخیصی ٹیمیں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں بھیجی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان کا صوبہ کنڑ اتوار کی شب 6.0 شدت کے آنے والے زلزلے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

کئی ممالک پہلے ہی امداد کا وعدہ کر چکے ہیں، جبکہ کچھ دیہات تک رسائی نہیں ہے اور مقامی صحت کی سہولیات بھی اس ہنگامی صورتحال کے لیے ناکافی ہیں۔

افغانستان کو اس وقت شدید خشک سالی کے ساتھ ساتھ طالبان کے مُلک پر کنٹرول کے بعد سے امداد میں کٹوتی جیسی مُشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔

میری آنکھ بچوں اور عورتوں کے چیخنے سے کھُلی۔ جب میں نے گھر کی طرف دیکھا تو چھت گر چکی تھی۔ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ یہ قیامت کی گھڑی کی طرح رات تھی۔ میرے بچے مجھ سے چپکے ہوئے تھے اور خوف سے رو رہے تھے۔ ہوا میں ہر جانب دھول اور مٹی تھی۔‘

یہ الفاظ ہیں کنڑ کے ایک عینی شاہد کے انھوں نے بی بی سی سے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’زلزلے کے فوری بعد موبائل نیٹ ورکس بند ہو گئے، ہم اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کر سکے۔ بجلی نہیں تھی، ہم نے صرف اپنے موبائل فون پر لائٹس کا استعمال کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’لوگوں کی مدد کے لیے مساجد میں اعلانات کیے گئے اور کہا گیا کہ بہت سے خاندان غم زدہ ہیں اور انھیں مرنے والوں کی تدفین میں مدد کی ضرورت ہے۔ میں نے بھی ایک گاؤں میں جا کر دس قبریں کھودیں۔ یہ صرف ایک گاؤں تھا اور سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے ہم دوسرے گاؤں میں نہیں جا سکتے تھے، تاہم کچھ لوگ پیدل وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔‘

وہاں ریسکیو کارکنان لاشیں اور زخمی افراد کو ریت اور پتھروں کے نیچے سے نکال رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد کو ایمبولینسز اور کچھ کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے جلال آباد علاج کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔