اسلام آباد میں بلوچ خاندانوں کے احتجاجی دھرنے کو دو مہینے مکمل ہوگئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر اور طویل احتجاجوں کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ چاہے وہ 2010 میں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کا کوئٹہ سے اسلام آباد تک مارچ ہو، 2013 کا پیدل لانگ مارچ جو کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک تین مہینے اور آٹھ دن میں مکمل ہوا، 2021 میں اسلام آباد کا ڈی چوک دھرنا، 2022 میں کوئٹہ ریڈ زون کا 55 دن طویل دھرنا، یا 2023 کی لانگ مارچ جو ایک مہینے سے زائد عرصہ اسلام آباد میں جاری رہی یا وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا بھوک ہڑتالی کیمپ بھی ہے جسے آج 5938 دن مکمل ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں نے پرامن احتجاج اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے مطالبات اٹھائے ہیں۔ شاید ہی پاکستان کی کسی اور قوم نے اتنی مسلسل اور وسیع پیمانے پر اپنے احتجاجات کو ریکارڈ کرایا ہو۔ اس کے باوجود ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم سیاسی لوگ نہیں، ہمارے مسائل حقیقی نہیں، یا ہم بات چیت اور مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔
سمی دین نے کہا کہ ان احتجاجوں کے دوران مظاہرین نے رکاوٹیں، اذیتیں، بارشیں، سردیاں، گرمیاں، کھلے آسمان تلے دن رات بیٹھنے کی مشقت، کریک ڈاؤن، شیلنگ اور گرفتاریوں سمیت ہر طرح کی مشکلات برداشت کیں، لیکن اپنے مطالبات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ کئی بار چند حکومتی نمائندے بھیج کر جھوٹے مذاکرات اور وعدے کیے گئے جو کبھی پورے نہ ہوئے، اور کبھی کریک ڈاؤن کیا یا پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہمارے احتجاج اور مطالبات کسی کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ مظاہرین کو سنا ہی نہ جائے تاکہ وہ تھک کر مایوس ہو کر واپس لوٹ جائیں، گویا اس رویے سے اس احساس کو مزید گہرا کیا جائے کہ بلوچ کا ریاست پاکستان سے انصاف کا مطالبہ کرنا محض فضول ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مظاہرین، جن میں لاپتہ افراد کی مائیں اور عزیز شامل ہیں، آخرکار تھک جائیں گے مایوس ط ہونگے ، وہ جہالت اور denial دونوں میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ وہ لواحقین ہیں جو پچھلے بیس پچیس برس سے اپنے گمشدہ پیاروں کی جبری گمشدگی انتہائی اذیت ناک درد کو جھیل رہے ہیں، وہ قوم جو مستقل ریاستی جبر کا سامنا کررہی ہے، جو روزانہ اس کرب کو اس جبر کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ کیسے تھکیں گے مایوس ہونگے یا احتجاج کرنا چھوڑ دینگے؟ یہ احتجاج صرف سیاسی مطالبہ نہیں بلکہ اُس مسلسل درد کا زندہ ثبوت ہیں جو بلوچ قوم اور گمشدہ افراد کے خاندان ہر روز سہتے ہیں۔
سمی دین نے کہا کہ اسلام آباد میں دو مہینے سے جاری موجودہ احتجاج کے بارے میں بھی ریاست نے یہی حکمت عملی اپنائی ہے کہ یہ خاندان تھک جائیں گے، مایوس ہو کر واپس لوٹ جائیں گے، یا ان کے وجود کو نظرانداز کر کے انہیں Invisible اور Non existent بنا دیا جائے گا، لیکن یہ سوچ خام خیالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومتی رویہ ہر دور میں ہمیشہ سے انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ اگر ریاست کے بار بار مایوس کرانے کی پاکیسیوں کے باوجود ہر بار یہ خاندان احتجاج پر ڈٹے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ریاست سے پرامید ہیں بلکہ یہ احتجاج اُس درد، اُس ناانصافی اور اُس جبر کو دنیا کے سامنے لانے کا ذریعہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ احتجاج دکھ و تکلیف کے اظہار کا وسیلہ ہیں۔ ان خاندانوں کے لیے یہ احتجاج امید کا نہیں بلکہ مزاحمت کا عمل ہے، ریاستی جبر کے انکار کا عمل، اس جبر کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان ہیں کہ جب تک ریاستی جبر جاری رہے گا، یہ مزاحمت احتجاجوں کی شکل میں بھی جاری رہیں گے۔
سمی دین نے کہا کہ یہ احتجاج صرف مظاہرے نہیں ہیں یہ مزاحمت ہیں۔