اسلام آباد: بلوچ لواحقین کا دھرنا دو ماہ اور چودہ روز بعد اختتام پذیر

5

اسلام آباد میں دو ماہ سے زائد عرصے سے جاری بلوچ لواحقین کے دھرنے کے شرکاء آج دھرنے کے 74ویں روز بھی پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے اور ایک پُرامن احتجاجی ریلی نکالی۔

ریلی شہر کی مختلف شاہراہوں سے گزرتی ہوئی دوبارہ پریس کلب پہنچی، اس موقع پر بلوچ لواحقین کے ساتھ طلبہ، سول سوسائٹی کے اراکین اور وکلاء کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔

ریلی کے شرکاء نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے، سیاسی پابندیوں کے خاتمے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

آج دھرنے کے 74ویں روز بلوچ لواحقین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنے طویل دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا۔

اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد ریاستِ پاکستان کی جانب سے ہمارے ساتھ روا رکھے گئے ظلم، جبر اور بے حسی کی تفصیل پیش کرنا ہے۔

ان کے مطابق ہم لواحقین گزشتہ 74 دنوں سے ریاست کے دارالحکومت میں اپنے پیاروں کی غیر قانونی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف پُرامن احتجاج کر رہے ہیں، اس عرصے میں ہمیں انصاف دینے کے بجائے نفرت، تشدد اور بے حسی کا سامنا کرنا پڑا۔

لواحقین نے کہا کہ ان 74 دنوں کے دوران مسلسل احتجاج نے ہمیں ایک ایسا تلخ سبق سکھایا ہے جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا، ریاست کے دارالحکومت میں ہمیں جس قدر نفرت، بے توقیری اور عزتِ نفس کی پامالی کا سامنا کرنا پڑا وہ ناقابلِ بیان ہے، جسمانی تشدد کے نشان وقت کے ساتھ مٹ جاتے ہیں لیکن نفرت انگیز رویّے اور عزتِ نفس کے مجروح ہونے کے اثرات پوری زندگی ذہنوں پر نقش رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد آنے سے قبل بھی ہمیں ریاست کے ایسے رویّے کا سامنا رہا، مگر دارالحکومت میں اس شدت سے پیش آنے کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ ہم انہیں مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتے۔

لواحقین کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبگر بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، گلزادی بلوچ اور بیبو بلوچ ایسے سیاسی کارکن ہیں جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، یہ رہنما بلوچ قوم کے حقیقی عوامی نمائندے ہیں اور اکثریتی بلوچ عوام انہیں اپنا نمائندہ مانتی ہے۔

ریاست نے ان حقیقی نمائندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو من گھڑت اور جعلی مقدمات میں گزشتہ چھ ماہ سے قید کر رکھا ہے، بلوچ عوام کا ہر فرد حتیٰ کہ بچے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ مقدمات جعلی ہیں اور ان گرفتاریوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے ریاستی جبر اور مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔

ان کا کہنا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ سنجیدہ اور باشعور ریاستیں عوامی آواز سنتی ہیں، مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اختلافِ رائے رکھنے والوں کو تشدد یا گولی سے نہیں دبایا جاتا لیکن ریاستِ پاکستان کا بلوچستان میں رویّہ ہمیشہ اس کے برعکس رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ریاست ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے سانس لینے پر بھی قدغن لگا دے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کے خلاف دو ماہ قبل اسلام آباد آئے تھے اُس وقت بھی ہمیں ریاست سے انصاف کی بہت کم امید تھی، مگر پھر بھی ہم نے کوشش کی کہ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ضمیر کو جھنجھوڑیں اور ریاستی جبر کی داستان دنیا کے سامنے پیش کریں۔

ہم نے دنیا کو بتایا کہ کس طرح عوامی جدوجہد کو طاقت اور تشدد سے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کس طرح عدالت اور قانون کو انسانی حقوق کے کارکنان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے، کس طرح صحافت کو جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے بروئے کار لایا جا رہا ہے اور کس طرح ریاست اپنی مشینری کو ایک عوامی تحریک دبانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔

پریس کانفرنس میں لواحقین نے کہا کہ اگرچہ ریاست نے ہمارے دو ماہ سے زائد عرصے پر محیط احتجاج کے دوران ہمیں انصاف نہیں دیا، لیکن ہماری بزرگ ماؤں نے سخت گرمی اور بارش کے باوجود صبر، حوصلے اور ہمت سے اپنی جدوجہد جاری رکھی اس جدوجہد نے دنیا کو آگاہ کر دیا کہ ریاست اپنے ہی دارالحکومت میں بلوچ عوام کے ساتھ کس طرح پیش آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بلوچ سیاسی کارکنوں کے خلاف جاری ریاستی جبر کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا، بزرگ ماؤں کے ساتھ روا رکھے گئے نفرت انگیز رویے کو دنیا کو دکھایا اور پُرامن جدوجہد کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کی کوششوں پر دنیا کو متوجہ کیا۔

لواحقین کے مطابق احتجاجی کیمپ کے دوران ریاستی بے حسی اور نفرت انگیز رویّے کو دیکھتے ہوئے سینئر بلوچ لکھاری اور بزرگ استاد محمد علی تالپور، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی منیزہ جہانگیر، ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی آمنہ مسعود جنجوعہ، معروف وکیل اور انسانی حقوق کی نمائندہ ایمان مزاری اور دیگر احباب مسلسل اس کیمپ کے خاتمے کی درخواست کرتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان احباب اور اپنے ہمدردوں کی اپیل پر غور اور مشاورت کے بعد اسلام آباد میں اپنے احتجاجی کیمپ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ہم اپنے پیاروں کی غیر قانونی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد کو مختلف طریقوں سے جاری رکھیں گے اور ریاستی جبر کے خلاف ہر حال میں آواز بلند کرتے رہیں گے۔

لواحقین نے مزید کہا کہ ان دو ماہ کے احتجاج میں ہم نے ریاست کے جبر اور مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہمیں اس بات کا اطمینان ہے کہ ہم نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ آواز بلند کرنے کی روایت کو برقرار رکھا، اور یہی ہماری جدوجہد کی اصل کامیابی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسلام آباد میں جاری اپنے احتجاجی کیمپ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان کرتے ہیں اور اُن تمام شخصیات کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس جدوجہد میں غیر مشروط طور پر ہمارا ساتھ دیا ہم اپنے احباب اور ہمدردوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی رہائی، جبری گمشدگیوں کے خاتمے اور ریاستی جبر کے خلاف جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیتے رہیں۔

آخر میں لواحقین نے کہا کہ ہم ریاست پر یہ بات واضح کرتے ہیں کہ جب تک بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو غیر مشروط طور پر رہا نہیں کیا جاتا ہم اپنی جدوجہد بلوچستان بھر میں جاری رکھیں گے۔