آزادی کی جنگ، جینا بھی، مرنا بھی – لکمیر بلوچ

44

آزادی کی جنگ، جینا بھی، مرنا بھی

تحریر: لکمیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں انسان نے اپنے ماحول سے اثر لیا ہے، اور اپنے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے رویے، فیصلے اور خواب بنائے ہیں۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں ہمیں اچھائیاں بھی نظر آتی ہیں اور برائیاں بھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا مقصد صرف ان برائیوں پر انگلی اٹھانا یا ان اچھائیوں پر فخر کرنا ہے، یا پھر اس سے بڑھ کر کوئی ایسا مقصد ہے جو ہماری پوری زندگی کا رُخ بدل دے؟ کچھ لوگوں کے لیے مقصد محض ذاتی کامیابی یا اخلاقی بلندی ہوتا ہے، مگر بعض کے لیے یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو ذاتی حدود سے نکل کر اجتماعی آزادی تک جا پہنچتی ہے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک اچھا یا برا ہونا محض ایک رائے ہے، ایک تاثر ہے جو بدل سکتا ہے، لیکن اصل ہدف ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر میں قربانی، صبر اور لڑائی لازم ہے۔

جب ایک قوم غلامی کے طوق میں جکڑ دی جاتی ہے، تو اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں: یا تو وہ اس غلامی کو قسمت سمجھ کر قبول کر لے، یا پھر اس کے خلاف کھڑی ہو کر اپنی آزادی کی جنگ لڑے۔ مگر یہاں ایک تلخ حقیقت ہے کہ غلامی کی حالت میں لڑی جانے والی جنگ اکثر ناکام ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب تک آپ ذہنی، فکری اور عملی طور پر آزاد نہ ہوں، آپ دشمن کے بنائے گئے دائرے میں پھنسے رہتے ہیں۔ آپ کی حکمت عملی، آپ کا حوصلہ، حتیٰ کہ آپ کا تصورِ کامیابی بھی دشمن کی طے کردہ حدود میں گھومتا رہتا ہے۔ اس لیے غلام رہ کر لڑی جانے والی جنگ میں اکثر ہار مقدر بنتی ہے، چاہے جذبے کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں۔

تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ روایتی جنگوں نے بڑے بڑے لشکروں کو ہلاک کیا، بڑے بڑے قلعے مسمار کیے، مگر کئی بار وہ اصل مقصد یعنی آزادی اور خودمختاری تک نہیں پہنچ سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی جنگ کا ڈھانچہ دشمن کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ آپ کیسے حملہ کریں گے، کہاں سے آئیں گے اور کہاں کمزور ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ جنگ کو صرف روایتی میدان تک محدود نہ رکھا جائے۔ جدید حکمت عملی، غیر روایتی طریقے اور روایتی طاقت کا ایک ایسا امتزاج تیار کیا جائے جو دشمن کو حیران بھی کرے اور پچھاڑ بھی دے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے اپنانے والے اکثر اپنی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ غیر روایتی جنگ دشمن کے ذہن پر حملہ کرتی ہے، اس کے اعتماد کو توڑتی ہے، اور اس کی طاقت کو اس کے خلاف استعمال کرتی ہے۔

لیکن جنگ صرف بندوقوں اور بارود کی لڑائی نہیں ہوتی۔ یہ ایک فکری، نفسیاتی اور معاشرتی جدوجہد بھی ہے۔ انسان جتنا بھی نیک، با اصول اور ایماندار ہو، اگر سماج میں ایسے لوگ نہ ہوں جو اس کو سمجھ سکیں، اس کی قربانیوں کی قدر کر سکیں، تو وہ آہستہ آہستہ اپنے ہی اندر خوف اور تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کیا میری قربانی کا کوئی مطلب بھی ہے؟ کیا میں جس کے لیے لڑ رہا ہوں، وہی لوگ میری نیت کو شک کی نظر سے دیکھیں گے؟ یہ سوال اس کے حوصلے کو کچا کر دیتا ہے۔ اور اگر معاشرہ ایسا ہو جہاں عزت کے لیے جان لینا اور دینا معمول کی بات ہو، وہاں ہر جدوجہد ایک خونین شکل اختیار کر لیتی ہے۔ عزت اور آزادی کے لیے قربانی دینا ایک مقدس کام ہے، مگر جب یہ قربانی ذاتی انا یا انتقام میں بدل جائے تو اصل مقصد دھندلا جاتا ہے۔

آزادی کا مفہوم ہر کسی کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ کچھ کے لیے آزادی مطلب معاشی خودمختاری ہے، کچھ کے لیے یہ مذہبی یا ثقافتی خودمختاری ہے، اور کچھ کے لیے یہ اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ مگر ایک عجیب بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص پیدا ہوا ہو جس نے آزادی کو اس کی اصل گہرائی میں مکمل طور پر سمجھا ہو۔ آزادی محض قید سے نکلنے کا نام نہیں، یہ ایک مسلسل ذمہ داری ہے۔ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جو جتنا میٹھا لگتا ہے، اتنا ہی بھاری بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ آزاد ہونے کے بعد آپ پر لازم ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی اور اپنی قوم کی قسمت خود سنبھالیں، اپنی غلطیوں کا بوجھ خود اٹھائیں، اور اپنی کامیابیوں کا سہرا بھی خود باندھیں۔

اس کے باوجود آج بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آزادی کے لیے قربانیاں دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شاید وہ اپنی زندگی میں اس آزادی کے پھل کا ذائقہ نہ چکھ سکیں، مگر ان کی قربانی آنے والی نسلوں کے لیے راستہ ہموار کرے گی۔ یہ لوگ دشمن سے لڑتے ہیں، اس کی طاقت کو چیلنج کرتے ہیں، اور کبھی کبھی آزادی کو اس حد تک منواتے ہیں کہ اسے اپنی شرائط پر قابو میں لے آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر آپ طاقتور دشمن کو شکست دینا چاہتے ہیں، تو آپ کو اس کی زبان میں بات کرنا پڑے گی، اس کے ہتھیاروں سے اس کو ہرانا پڑے گا، اور اس کے منصوبوں کو اس سے بہتر منصوبوں سے مات دینا پڑے گی۔

یہ سب کچھ سننے میں رومانوی اور حوصلہ افزا لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک طویل، کٹھن اور خونریز راستہ ہے۔ اس راستے پر چلنے والا شخص ہر لمحہ آزمائش میں ہوتا ہے۔ اس کے سامنے دشمن ہی نہیں، بلکہ اپنے لوگ بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو یا تو ڈر کے مارے خاموش رہتے ہیں، یا دشمن کے ساتھ مل کر اس کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ اس لیے آزادی کی جنگ میں سب سے بڑی لڑائی صرف دشمن کے خلاف نہیں، بلکہ اپنے اندر کے خوف، شک اور تھکن کے خلاف بھی ہوتی ہے۔

جب ہم اس جدوجہد کو سمجھتے ہیں تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آزادی کا خواب صرف نعرے لگانے سے پورا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے فکری تیاری، عملی منصوبہ بندی، اور قربانی دینے کا حوصلہ چاہیے۔ ایک آزاد جنگجو وہ ہے جو اپنی جان کا مول جانتا ہے، مگر اسے قوم کی خاطر قربان کرنے سے نہیں ڈرتا۔ وہ جانتا ہے کہ اگر آج وہ پیچھے ہٹ گیا، تو آنے والی نسلیں غلامی میں پیدا ہوں گی اور غلامی میں ہی مر جائیں گی۔ اس لیے وہ اپنے ہر دن کو آخری دن سمجھ کر لڑتا ہے، ہر سانس کو ایک موقع سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔

دنیا کے نقشے پر ہر وہ قوم جو آج آزاد ہے، اس آزادی کی قیمت خون اور قربانی میں ادا کر چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس قربانی کی قدر کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنی آزادی کو محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم اسے ایک معمولی بات سمجھ کر اس کا حق ادا کرنے سے غافل ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر آزاد انسان کو خود سے پوچھنا چاہیے۔ کیونکہ اگر آپ آزادی کی حفاظت نہیں کریں گے، تو دشمن ہمیشہ قریب کھڑا ہے، تیار ہے کہ آپ کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر آپ کو دوبارہ غلام بنا لے۔

آخر میں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آزادی اور غلامی کی جنگ میں کوئی حتمی جیت یا ہار نہیں ہوتی۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے، ایک ایسی جدوجہد جو نسل در نسل چلتی ہے۔ ایک نسل لڑ کر آزادی حاصل کرتی ہے، اگلی نسل اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے لڑتی ہے، اور پھر اس کے بعد آنے والی نسل اس آزادی کو مزید وسیع کرنے کے لیے کوشش کرتی ہے۔ اگر کسی بھی مرحلے پر یہ سلسلہ ٹوٹ جائے، تو غلامی کے اندھیرے واپس آ سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف آزادی کے لیے لڑنا سیکھیں بلکہ آزاد رہنے کے فن کو بھی سیکھیں۔ یہ فن صرف ہتھیار چلانے کا نہیں، بلکہ ذہن کو آزاد رکھنے، دل کو مضبوط رکھنے، اور دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کا فن ہے۔

آزادی ایک مسلسل جنگ ہے، اور اس جنگ میں جینا بھی آزادی کے لیے ہے اور مرنا بھی۔ جو لوگ اس فلسفے کو دل سے مان لیتے ہیں، وہ کبھی ہار نہیں مانتے، چاہے دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ ان کے نزدیک زندگی کا مقصد خود کو اچھا یا برا ثابت کرنا نہیں، بلکہ اس مقصد کے لیے جینا اور مرنا ہے جو ان کے دل میں ایک مقدس امانت کی طرح رکھا گیا ہے۔ اور جب یہ امانت پوری ہو جاتی ہے، تو وہ جانتے ہیں کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی، بلکہ ایک نئی صبح کے لیے بنیاد ڈال گئی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔